علی کی بیوی زاہدہ ناراض ہو کر گھر چلی گئی اور زاہدہ نے عدالت میں خلع کا دعویٰ دائر کر دیا ۔علی کو اس کا دوست سمجھا رہا تھا کہ جیسا تمہارا رویہ ہے کہیں تم اپنا گھر تباہ و برباد نہ کر لینا ،علی نے کہا میرا رویہ اگرٹھیک نہ ہوا تو یہ رویہ میرے گھر کو تباہ اور بربادکر سکتا ہے ۔اس طرح کہنے سے نکاح پر اثر تو نہ پڑا؟
صورتِ مسئولہ میں ان الفاظ "میرا رویہ اگرٹھیک نہ ہوا تو یہ رویہ میرے گھر کو تباہ اور بربادکر سکتا ہے "کی ادائیگی سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑا۔
البتہ یہاں یہ ملحوظ رہے کہ خلع سے متعلق شرعی حکم یہ ہے کہ خلع بھی دیگر مالی معاملات کی طرح ایک مالی معاملہ ہے جس میں جانبین یعنی میاں بیوی دونوں کی رضامندی ضروری ہے ،اور شوہرکی رضامندی کے بغیر دی جانے والا یک طرفہ عدالتی خلع شرعًانافذ نہیں ہوتا،لہذا اگر عدالت مذکورہ عورت کو خلع شوہر کی رضامندی کے بغیر دیتی ہے تو یہ نافذ نہیں ہوگا، میاں بیوی کے درمیان نکاح بدستور قائم رہے گا، اور اس خلع کی بنیاد پر اس عورت کا کسی دوسری جگہ نکاح کرنا جائز نہیں ہوگا ۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144208201219
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن