بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میرا معاملہ تم سے ختم ، ختم ، ختم


سوال

کیافرماتےہیں مفتیان کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ آج کل ہر گھرمیں زوجین میں عموماً تھوڑی بہت ناچاقی وقتاً فوقتاً رہتی ہے۔ 31-10-20021ءیعنی اکتیس اکتوبربروزاتوارمیری اہلیہ بغیراجازت کے والدین کے ساتھ میکے چلی گئی ، پندرہ دن رہی اور اس دوران شوہرسے  کوئی بات نہیں کی ، پھراچانک 15/ نومبر2021ء کودوبارہ گھرآئی اورشوہرکی غیرموجودگی میں بچوں کو بھی لے گئی  رات کوجب شوہرگھرآیاتوفون کرکے معلومات کی توبیوی نے کہاکہ اگربچوں کولینے آئے توٹانگیں توڑدوں گی، وغیرہ ، وغیرہ ، شوہرنے فون ہی پراس سے یہ کہاکہ میرامعاملہ تم سے ختم ، ختم ، ختم جس پربیوی نے گھروالوں کوبتلایاکہ میرے شوہرنے مجھے تین طلاقیں دیدیں ہیں ۔ (شوہرنےلفظ ختم سے نکاح کے ختم کاارادہ اورنیت کی ہے۔اب امورمطلوبہ شریعت کی روشنی میں جواب دےکرحل فرمائیں۔ 

1:شوہرکی اجازت کے بغیربیوی کامیکےجاناجائز ہے یانہیں ؟

2:لفظ ختم سےکونسی طلاق واقع ہوئی دوبارہ نکاح کی گنجائش ہے ؟

3:عورت طلاق کی عدت کہاں گزارے؟

4:عدت کانان نفقہ شوہرکے ذمہ ہے اورکتنا؟

5:بچوں کاحق کس کے پاس رہنے کاہے جب کہ چاربچے دس سال سے زائد عمرکےہیں ، اورایک بچی نوسال اورلڑکاچھ سال کاہے۔

براہ کرم ان امورمذکورہ کی شریعت کی روشنی میں تفصیلی جواب عنایت فرمادیجئے۔

جواب

1: صورت مسئولہ میں بیوی کے لیے شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے، ایسی خاتون کےبارےمیں حدیث میں وعید آئی ہے، حدیث شریف میں ہے کہ  ایک خاتون  نبی کریم ﷺ کے پاس آئی اور عرض کیا: یا رسول اللہ : شوہر کا بیوی پر کیا حق ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : شوہر کا حق  اس پر یہ ہے کہ وہ اس کی اجازت کے بغیر اپنے گھر سے نہ نکلے، اگر وہ ایسا کرے گی تو آسمان کے فرشتہ اور رحمت وعذاب کے فرشتہ  اس پر لعنت بھیجیں گے یہاں تک کہ وہ لوٹ آئے۔

حدیث شریف میں ہے:

"وروي عن ابن عباس رضي الله عنهما أن امرأة من خثعم أتت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله! أخبرني ما حق الزوج على الزوجة؟؛ فإني امرأة أيم فإن استطعت وإلا جلست أيماً! قال: فإن حق الزوج على زوجته إن سألها نفسها وهي على ظهر قتب أن لا تمنعه نفسها، ومن حق الزوج على الزوجة أن لا تصوم تطوعاً إلا بإذنه فإن فعلت جاعت وعطشت ولا يقبل منها، ولا تخرج من بيتها إلا بإذنه فإن فعلت لعنتها ملائكة السماء وملائكة الرحمة وملائكة العذاب حتى ترجع، قالت: لا جرم ولا أتزوج أبداً". رواه الطبراني". (الترغيب والترهيب للمنذري (3/ 37)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولیس لها أن تخرج بلا إذنه أصلًا".

(ردالمحتار علی الدرالمختار،کتاب الطلاق  ،3/ 146، ط: سعید)

2:اگرواقعۃ ً شوہرنےطلاق کی نیت سے یہ الفاظ کہےجیسا کہ استفتاء میں مذکورہے کہ" میرامعاملہ تم سے ختم، ختم، ختم" تومذکورہ شخص کی بیوی پر ایک طلاقِ بائن  واقع ہو گئی اور نکاح ختم ہو گیا۔مطلقہ عدت گزارکردوسری جگہ نکاح میں آزادہے۔البتہ اگر میاں بیوی  دوبارہ ساتھ رہنا چاہتے ہوں تو  نئے مہر کے ساتھ شرعی گواہاں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں اور آئندہ کے لیے شوہر کے پاس دو طلاقوں کا اختیار ہو گا۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولو قال لها: لا نكاح بيني وبينك، أو قال: لم يبق بيني وبينك نكاح، يقع الطلاق إذا نوى"

(الفتاوي الهندية، كتاب الطلاق، 1/ 375 ط:رشيدية)

وفیہ ایضا:

إذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها.

(الفتاوي الهندية، كتاب الطلاق، ۱/ ۴۷۳ ط:رشيدية)

3:شرعی نقطہ نظرسے معتدہ پرعدت اسی گھرمیں گزارناضروری ہے جس میں شوہرکے ساتھ رہائش تھی،اوربغیرکسی شرعی عذرکے عدت کےدوران گھرسے نکلناجائز نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت ( في بيت وجبت فيه ) ولا يخرحان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل أو تخاف ) انهدامه ....... ونحو ذلك من الضرورات۔

(ردالمحتار علي الدر المختار ، كتاب الطلاق، فصل في الحداد ۳/ ۵۳٦ ط: سعيد)

وفیہ ایضا:

( ولا تخرج معتدة رجعي وبائن ) بأي فرقة كانت على ما في الظهيرية ولو مختلعة على نفقة عدتها في الأصح اختيار۔

 (ردالمحتار علی الدر المختار، كتاب الطلاق، باب الخلع ۳/ ۵۳۵ ط: سعيد)

4:دوران ِعدت نان نفقہ شوہرپر اس کی استطاعت کےمطابق لازم ہے، بشرطیکہ عدت شوہرکے گھرمیں یااس کی اجازت سے اپنےوالدین کے گھرمیں گزارے ۔اگرشوہرکی اجازت کےبغیرکہیں اورعدت گزارے تووہ ناشزہ کے حکم میں ہوگی اورناشزہ کانفقہ شوہرپرلازم نہیں ہے؟

فتاوی عالمگیری میں ہے:

المعتدة عن الطلاق تستحق النفقة والسكنى كان الطلاق رجعيا أو بائنا، أو ثلاثا حاملا كانت المرأة، أو لم تكن كذا في فتاوى قاضي خان۔

(الفتاوى الهنديةکتاب الطلاق الباب السابع عشر فی النفقات۱/۵۵۷ ط: رشید یۃ)

فتاوی شامی میں ہے:

"لانفقة لأحد عشر ... وخارجة من بیته بغیر حق و هي الناشزة حتی تعود".

(ردالمحتار علی الدر المختار، ج:3، ص:575، ط:ایچ ایم سعید)

5:واضح رہے کہ شرعی نقطہ نظرسے بچوں کی تربیت ماں اورباپ  دونوں کی(اپنے اپنے دائرہ کارمیں ) ذمہ داری بنتی ہے ،تاہم ابتدائی چندسالوں میں شریعت نے پرورش ماں کے ذمہ لگائی ہے کہ اس کے علاوہ کوئی بھی اس جیسی تربیت نہیں کرسکتا، اورپرورش سے متعلق یہ تفصیل ہے کہ لڑکاسات سال کی عمرتک اورلڑکی نوسال کی عمرتک ماں کی پرورش میں رہے گی ۔اس کے بعد پرورش وتربیت کاشرعی حق والدکوحاصل ہوگا۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدةً أو فاجرةً غير مأمونة، كذا في الكافي ... وإن لم يكن له أم تستحق الحضانة بأن كانت غير أهل للحضانة أو متزوجةً بغير محرم أو ماتت فأم الأم أولى من كل واحدة ... والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني، وقدر بسبع سنين، وقال القدوري: حتى يأكل وحده، ويشرب وحده، ويستنجي وحده. وقدره أبو بكر الرازي بتسع سنين، والفتوى على الأول. والأم والجدة أحق بالجارية حتى تحيض. وفي نوادر هشام عن محمد  رحمه الله تعالى: إذا بلغت حد الشهوة فالأب أحق، وهذا صحيح. هكذا في التبيين ... وإذا وجب الانتزاع من النساء أو لم يكن للصبي امرأة من أهله يدفع إلى العصبة فيقدم الأب، ثم أبو الأب، وإن علا.

(الفتاوی الهندية کتاب الطلاق الباب السادس عشرفی الحضانة۱/ ۵۴۱ط : رشيديه)

لہذاصورت مسئولہ میں چونکہ چارلڑکوں کی عمردس سال ہوچکی ہے اورلڑکی کی عمر بھی نوسال ہوچکی ہے اس لیے والد کویہ حق حاصل ہے کہ وہ ان بچوں کو اپنی تحویل میں لے لے۔البتہ جولڑکاچھ سال کاہے وہ ماں کے پاس رہے گااورسات سال کےبعدماں سے پرورش کاحق ختم ہوجائےگا۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100577

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں