بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میرا گھر میرا پاکستان اسکیم


سوال

 ایک سرکاری سکیم جس کا نام “میرا گھر میرا پاکستان“ ہے، یہ   ہماری تنخواہ کی رسید دیکھ کر ہمیں قرضہ دیتی ہے، اور اس قرض کی رقم پر ٥-٧ (پانچ سے سات)فیصد تک شرح سود ہوتا ہے، یہ رقم ہمیں نہیں ملتی بلکہ گھر کا مالک جس سے ہم گھر خرید رہے ہوتے ہیں اسے دو اقساط میں ملتی ہے اور گھر ہمیں ملتا ہے جبکہ گھر کے کاغذات اسکیم والوں کے پاس ہوتے ہیں جو کہ ٢٠(بیس) سال میں قرض مع ٥-٧ (پانچ سے سات)فیصد شرح سود واپس جمع کرنے پر ہمیں کاغذات دیتے ہیں۔ آپ حضرا ت سے یہ پوچھنا ہے کہ آیا مندرجہ بالاشرط پر قرضہ لینا جائز ہے یہ نہیں؟

جواب

صورت مسئولہ میں میراگھر میرا پاکستان اسکیم میں بینک سے گھر لینے کا جو طریقہ بتایا گیا ہے یہ خالص سودی قرضہ  ہے جو کہ ناجائز اور حرام ہے ۔لہذا اگر مذکورہ معاملہ کر لیا ہے تو اس کو فورا ختم کرنا ضروری ہے اور اس پر توبہ و استغفار لازم ہے۔

سود کا لین دین شرعاً ا س قدر قبیح اور ناپسندیدہ ہے کہ اسے اللہ اور اس کے رسول ﷺکے ساتھ اعلان جنگ قرار دیاگیا ہے۔قرآنِ کریم میں ہے:

" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿البقرة: ٢٧٨﴾فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ ﴿البقرة: ٢٧٩﴾"

ترجمہ:"اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑدو، اگر تم ایمان والے ہو ، پھر اگر تم اس پر عمل نہیں کروگے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف سے۔"( بیان القرآن )

نیز سود کے ایک درہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے 36مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ سخت گناہ قرار دیا ہے۔

سنن الدار قطنی میں ہے:

"عن عبد الله بن حنظلة ، أن النبي صلى الله عليه وسلم ، قال: «الدرهم ربا ‌أشد ‌عند ‌الله تعالى من ستة وثلاثين زنية في الخطيئة»."

(کتاب البیوع جلد ۳ ص : ۴۰۵ ط : مؤسسة الرسالة ، بیروت ۔ لبنان)

نیز سود کا انجام تباہی اور بربادی ہی ہے۔ سودی معاملے کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگایا جائے کہ اس گناہ کا اثر صرف براہِ راست سودی معاملہ کرنے والے دو اشخاص تک محدود نہیں رہتا، بلکہ اس سے متعلقہ افراد (جو کسی بھی طرح اس سودی معاملہ میں معاون بنتے ہیں، مثلاً: لکھنے والا، گواہ، وغیرہ) وہ سب اللہ کی لعنت اور اس کی رحمت سے دوری کے مستحق بن جاتے ہیں  خلاصہ یہ کہ سودی معاملہ اور سودی لین دین قرآن وحدیث کی رو سے حرام ہے۔

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144308100827

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں