بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

’’میرا اللہ سے کوئی واسطہ نہیں ہے‘‘ کہنے سے ایمان کا حکم


سوال

ایک آدمی نے اپنی بیوی کو مناتے ہوئے کہا کہ اللہ کے واسطے مجھے معاف کردو، بیوی نے غصہ میں کہا کہ ’’میرا اس اللہ سے کوئی واسطہ نہیں ہے، وہ میری کچھ نہیں سنتا ہے‘‘۔

یہ الفاظ کہنے سے عورت کے ایمان کا کیا حکم ہے؟

جواب

بصورتِ مسئولہ اگر یہ الفاظ کہ ’’میرا اللہ سے کوئی واسطہ نہیں ہے‘‘ کہتے ہوئے عورت کو اس بات کا علم تھا کہ یہ کفریہ الفاظ ہیں، اور یہ کہ یہ الفاظ کہنے والا شخص دائرۂ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، تو مذکورہ عورت یہ الفاظ کہتے ہی دائرۂ اسلام سے خارج ہوچکی ہے، اور دونوں کا نکاح ختم ہوچکا ہے، نیانکاح کیے بغیر میاں بیوی کا ساتھ رہنا درست نہیں ہے۔

لیکن اگر عورت کو اس بات کا علم نہ تھاکہ یہ الفاظ ادا کرنے سے ایمان چلا جاتا ہے، تو اس سے عورت کافر تو نہیں ہوئی، البتہ یہ انتہائی نامناسب جملہ ہے، جس پر خوب توبہ واستغفارکرے۔

المحيط البرهاني في الفقه النعماني میں ہے:

"إذا قال: إن فعلت كذا فأنا ‌بريء ‌من ‌الله تعالى فهو يمين لأن البراءة من الله تعالى ‌كفر وتعليق ‌الكفر بالشرط يمين."

(ص:٢٠٦، ج:٤، کتاب الأيمان، الفصل الثانی فی ألفاظ اليمين، ط: دار الكتب العلمية)

لسان الحكام میں ہے:

"رجل قال إن فعلت كذا فأنا بريء من الله تعالى أو من هذه القبلة أو من صوم رمضان أو من الصلاة فهذا كله يمين لأن ‌البراءة من هذه الأشياء ‌كفر هكذا ذكره أبو الليث في نوازله."

(ص:٣٤٧، الفصل السادس عشر فی الأيمان، ط: البابي حلبي)

الفتاوي الهندية میں ہے:

"ارتد أحد الزوجين عن الإسلام وقعت الفرقة بغير طلاق في الحال قبل الدخول وبعده ثم إن كان الزوج هو المرتد فلها كل المهر إن دخل بها ونصفه إن لم يدخل بها وإن كانت هي المرتدة فلها كل المهر إن دخل بها وإن لم يدخل بها فلا مهر لها."

(ص:٣٣٩، ج:١، کتاب النکاح، الباب العاشر فی نکاح الکفار، ط: دار الفکر، بیروت)

البحر الرائق میں ہے:

"والحاصل أن من تكلم بكلمة الكفر هازلا أو لاعبا كفر عند الكل ولا اعتبار باعتقاده كما صرح به قاضي خان في فتاويه ومن تكلم بها مخطئا أو مكرها لا يكفر عند الكل ومن تكلم بها عالما عامدا كفر عند الكل ومن تكلم بها اختيارا جاهلا بأنها كفر ففيه اختلاف والذي تحرر أنه لا يفتى بتكفير مسلم أمكن حمل كلامه على محمل حسن أو كان في كفره اختلاف ولو رواية ضعيفة فعلى هذا فأكثر ألفاظ التكفير المذكورة لا يفتى بالتكفير بها ولقد ألزمت نفسي أن لا أفتي بشيء منها."

(ص:١٣٤، ج:٥، کتاب السير، باب أحكام المرتدين، ط: دار الكتاب الإسلامي)

حاشية ابن عابدين میں ہے:

"وفي شرح الوهبانية للشرنبلالي: ما يكون كفرا اتفاقا يبطل العمل والنكاح وأولاده أولاد زنا، وما فيه خلاف يؤمر بالاستغفار والتوبة وتجديد النكاح.

(قوله وتجديد النكاح) أي احتياطا كما في الفصول العمادية. وزاد فيها قسما ثالثا فقال: وما كان خطأ من الألفاظ ولا يوجب الكفر فقائله يقر على حاله، ولا يؤمر بتجديد النكاح ولكن يؤمر بالاستغفار والرجوع عن ذلك، وقوله احتياطا أي يأمره المفتي بالتجديد ليكون وطؤه حلالا باتفاق، وظاهره أنه لا يحكم القاضي بالفرقة بينهما، وتقدم أن المراد بالاختلاف ولو رواية ضعيفة ولو في غير المذهب."

(ص:٢٤٦، ج:٤، کتاب الجهاد، باب  المرتد، ط: ايج ايم سعيد)

’’فتاویٰ دار العلوم دیوبند‘‘ میں ہے:

’’سوال:ایک شخص نے پانچ، چھ آدمیوں کے روبرو علیٰ الاعلان یہ کہا کہ مجھ کو خدا اور رسول سے کچھ واسطہ نہیں ہے، وہ شخص مسلمان رہا یا نہیں؟

جواب: یہ کلمہ کفر کا ہے، اس شخص کو توبہ وتجدید اسلام وتجدیدِ نکاح کرنا چاہیے، اور آئندہ ایسے کلمات سے احتراز کرنا چاہیے۔‘‘

(ص:٢١٢، ج:١٢، کتاب السیر، احکامِ مرتد، ط: دار الاشاعت، کراچی)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508101492

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں