بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میں نے اس کو طلاق دے دی ہے، پھر بھی یہ میرے ساتھ بیٹھی ہے، کہنے کا حکم


سوال

میرا شوہر نشئی ہے ، میں چار بچوں کی ماں ہوں، میرا شوہر  آئس کا نشہ بھی کرتا تھا، اور میرے اوپر شک بھی کرتا تھا ، نشے کی حالت میں گلی میں پھرتے ہوئے لوگوں سے کہتا تھا کہ " میں نے اس کو طلاق دی ہے۔ پھر بھی یہ میرے ساتھ بیٹھی ہے"۔ جس کے بعد شوہر نے رجوع کر لیا تھا۔

اسی طرح ہر وقت گھر میں کہتا تھا کہ " کاغذ لے کر آؤ، میں تمہیں 3 مرتبہ طلاق دوں گا"۔ آخر کار ایک دن اس نے مجھے کہا :" اگر تم میری غیر موجودگی میں کہیں گئیں تو تم پر طلاق طلاق طلاق ہوگی"۔ یہ جملہ کہنے کے بعد ایک دن ہمارے گھر میں لڑائی ہوئی اور لڑائی کے وقت میرے سسر اور میرے شوہر دونوں گھر پر موجود تھے ، شوہر کی موجودگی میں، میں اپنے دیور کے گھر چلی گئی ۔ اس پر لوگوں نے باتیں بنانا شروع کر دیں کہ طلاق ہو گئی ہے، اس کے بعد میں اپنے میکے کے گھر چلی گئی اب پانچ ماہ پورے ہونے والے ہیں، آپ حضرات راہ نمائی فرمائیں کہ  ان جملوں سے مجھ پر طلاق واقع ہوئی  ہے یا نہیں؟  اگر واقع ہوئی ہے  تو کتنی طلاقیں واقع ہوئی  ہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائلہ کے شوہر نے جب اسے کہا تھا کہ  " میں نے اسے طلاق دے دی ہے،  پھر بھی یہ میرے ساتھ بیٹھی ہے" اس جملہ سے  سائلہ پر ایک طلاق رجعی  واقع ہوگئی تھی، تاہم مذکورہ جملہ کہنے کے بعد سائلہ سے اس کا شوہر چوں کہ رجوع کر چکا ہے، لہذا نکاح بدستور قائم ہے، جب کہ  شوہر کا دوسرے  جملے " کاغذ لے کر آؤ،  میں تمہیں تین طلاق دوں گا" سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، البتہ شوہر کا تیسرا جملہ " اگر تم میری غیر موجودگی میں کہیں گئیں تو تم پر طلاق طلاق طلاق ہوگی " سے  في الحال  طلاق واقع نہیں ہوئی ہے، کیوں کہ وہ شوہر اور سسر کی موجودگی میں گھر سے گئی تھی، تاہم سائلہ شوہر کی غیر موجودگی میں جب کبھی کہیں گئی، تو اس پر بقیہ دو طلاقیں بھی واقع ہوجائیں گی، اور وہ شوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجائے گی،  جس کے بعد شوہر کے لیے اس سے رجوع کرنا یا دوبارہ نکاح کرنا جائز نہیں ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق."

( كتاب الطلاق، الباب الرابع في الطلاق بالشرط، الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة إن وإذا وغيرهما، ١ / ٤٢٠، ط: دار الفكر)

وفیہ ایضا:

"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا، ويدخل بها، ثم يطلقها أو يموت عنها. كذا في الهداية. ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها. كذا في فتح القدير.  ويشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل وهو التقاء الختانين هكذا في العيني شرح الكنز. أما الإنزال فليس بشرط للإحلال."

( كتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة، فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به، ١ / ٤٧٣، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144411101037

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں