ایک شخص نے کہا کہ فلاں صاحب کہتے ہیں کہ مینڈک کھانا حلال ہے تو دوسرے نے کہا کہ مینڈک حلال ہو یا حرام، اس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟ ویسے وقت ضائع کرناہے، آیا ایسی بات کلمہ کفر میں داخل تو نہیں؟
تکفیرِ مسلم کا مسئلہ بہت حسّاس ہے،اگر کسی کے قول میں 99/ احتمالات کفر کے پائے جائیں اور ایک معتبر احتمال عدمِ کفر کا پایا جائے تو بھی اس پر کفر کا فتوی نہیں لگایا جاتا، مگر یہ کہ کوئی قول کھلا ہوا کفر ہو جس میں کوئی تاویل ممکن نہ ہو۔
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ جملے سے کفر لازم نہیں آتا؛ اس لیے کہ "مینڈک حلال ہو یا حرام، اس سے کیا فرق پڑتا ہے " میں ایسے احتمال ہیں جو کہ کفر کا سبب نہیں ہیں، مثلاً کہنے والے کو مینڈک کھانے سے دل چسپی نہ ہو، اس لیے اس نے کہا کہ یہ وقت ضائع کرنے والی بات ہے، وغیرہ۔
باقی مینڈک کے بارے میں حکم یہ ہے کہ حنفیہ کے ہاں یہ حلال نہیں ہے، خواہ بری ہو یا بحری (مائی) ۔
الدر المختار و حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4 / 41):
"أنه يجب أن يحتاط في عدم تكفير المسلم، والإمام إنما اعتبر أقصى السكر للاحتياط في درء السكر واعتبار الأقصى هنا خلاف الاحتياط، هذا حاصل ما في الفتح."
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144206201253
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن