میرا اور میری بیوی کا جھگڑا چل رہا تھا، تو جھگڑے کے دوران میری بیوی نے کہا مجھے فارغ کر دو، تو میں نے غصے میں تین مرتبہ یہ کہا کہ" میں نے فارغ کر دیا " اب سوال یہ ہے کہ کیا میری بیوی کو طلاق واقع ہو گئی ہے؟ اگر طلاق ہو گئی ہے تو اس مسئلے کا حل بتا دیں،دوبارہ نکاح ہو گا یا کیا ہو گا؟
صورتِ مسئولہ میں میاں بیوی میں جھگڑے کے دوران بیوی کے مطالبہ پر جب سائل نے یہ الفاظ کہے کہ " میں نے فارغ کر دیا"تو مذکورہ الفاظ کی وجہ سے بیوی پر ایک طلاقِ بائن واقع ہوگئی ہے،اور نکاح ختم ہوگیا ہے، تاہم اگر میاں بیوی دونوں باہمی رضامندی سے دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر اور ایجاب و قبول کے ساتھ تجدیدِ نکاح کرکے رہ سکتے ہیں، اور ایسی صورت میں آئندہ کے لیے شوہر کو بقیہ دو طلاقوں کا حق حاصل ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(كنايته) عند الفقهاء (ما لم يوضع له) أي الطلاق (واحتمله) وغيره (ف) الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال)، وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب. (قوله: وهي حالة مذاكرة الطلاق) أشار به إلى ما في النهر من أن دلالة الحال تعم دلالة المقال قال: وعلى هذا فتفسر المذاكرة بسؤال الطلاق أو تقديم الإيقاع، كما في اعتدي ثلاثاً وقال قبله المذاكرة أن تسأله هي أو أجنبي الطلاق".
(کتاب الطلاق، باب الکنایات،ج:3،ص:296-297،ط: سعید)
المبسوط للسرخسی میں ہے:
"(قال): ولو قال: أنت مني بائن أو بتة أو خلية أو برية، فإن لم ينو الطلاق لايقع الطلاق؛ لأنه تكلم بكلام محتمل."
(کتاب الطلاق ،باب ما تقع به الفرقة مما يشبه الطلاق،ج:6،ص:72،ط:دار المعرفة)
فتاوی شامی میں ہے:
" (لا) يلحق البائن (البائن) إذا أمكن جعله إخباراً عن الأول كأنت بائن بائن، أو أبنتك بتطليقة فلا يقع؛ لأنه إخبار، فلا ضرورة في جعله إنشاء. (قوله: لا يلحق البائن البائن) المراد بالبائن الذي لا يلحق هو ما كان بلفظ الكناية؛ لأنه هو الذي ليس ظاهراً في إنشاء الطلاق، كذا في الفتح."
(کتاب الطلاق ،باب الکنایات ،ج:3،ص:308، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144612101421
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن