بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

’’میں جارہا ہوں یہاں سے تجھے طلاق دے کر‘‘ کہنے سے طلاق ہوئی یا نہیں؟


سوال

پہلی طلاق پانچ  سال پہلے دی تھی، نیت ارادہ نہ تھا بس اچانک بنا سمجھے منہ سے نکلا، حلفاً کہتی ہوں،  الفاظ یاد نہیں ہیں کیو نکہ لمبا عرصہ گزر چکاہے، بس یہ یاد پڑتا کہ طلاق کا لفظ تھا اب جملہ کیا تھا یاد نہیں،  پھر دوسری طلاق نو  مہینے پہلے دی ، اس وقت میں اپنے ابو کے گھر تھی، رات کو بھائی کوبیاہ کر لائے، صبح پانچ  بجے تک باتیں کرتے رہے، صبح ناشتے میں شوہر بلا وجہ ناراض ہو گئے اور گالم گلوچ کرنے لگے، میں نے کہا کہ میرے ابو کے گھر میں ہی گالیاں دے رہے ہو تو کہتےہیں  میں جا رہا ہوں یہاں سے (گالی دی کہ فلاں کی بچی)تجھے طلاق دے کر، اس پر مولانا صاحب نے کہا کہ طلاق نہیں ہوئی  کیونکہ جملہ صحیح نہیں ہے یہ بولنے کے بعد دی نہیں،مثال ایسے ہےجیسے کوئی کہے میں  جا رہا ہوں یہاں سے قتل کر کےمگر پھر کیا نہیں اور یہ بھی بولا کہ طلاق حال اور ماضی کے جملے سے ہوتی ہے یہ جملہ صحیح نہیں کہ میں جا رہا ہوں یہاں سے، یہ جملہ حال اور مستقبل کا ہے، اس لیے اگر نیت یا طلاق کا ارادہ نہیں تھا تو گنجائش ہے، اس کےبعد تیسری طلاق ابھی تین  مہینے پہلے دی وہ تو صحیح الفاظ تھے اب رابطہ کیا ہے کہ دوسری میں گنجائش ہے ،  مجھے میری اولاد کی خاطر بتا دیں کہ دوسری کی گنجائش ہے؟

جواب

 سوال میں ذکر کردہ صورتِ حال اگر واقع کے مطابق اور درست ہے تو شوہر کے ’’میں جارہا ہوں یہاں سے تجھے طلاق دے کر‘‘ کہنے سے دوسری طلاق واقع ہوچکی ہے، اور اس جملے کو ’’میں  جا رہا ہوں یہاں سے قتل کر کے‘‘ پر قیاس کرنا درست نہیں کیونکہ قتل فعل کا محتاج ہوتا ہے جب کہ طلاق دینا فعل کامحتاج نہیں بلکہ قول (یعنی صرف کہہ دینے) سے بھی ہوجاتی ہے اور ’’جارہاہوں‘‘ کا جملہ حال کا جملہ ہے، مستقبل کانہیں ہے۔ 

چونکہ پہلی اور تیسری طلاق کے وقوع  میں کوئی شبہ نہیں اس لیے دوسری طلاق واقع ہونے سے مجموعی تین طلاقیں ہوگئی ہیں اور نکاح ختم ہوگیا ہے، اب رجوع کی گنجائش نہیں رہی کیونکہ آپ شوہر کے لیے حرام ہوچکی ہیں۔ 

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"قالت لزوجها من باتو نميباشم فقال الزوج مباش فقالت طلاق بدست تو است مرا طلاق كن فقال الزوج طلاق ميكنم طلاق ميكنم وكرر ثلاثا طلقت ثلاثا بخلاف قوله ‌كنم لأنه استقبال فلم يكن تحقيقا بالتشكيك.

في المحيط لو قال بالعربية ‌أطلق لا يكون طلاقا إلا إذا غلب استعماله للحال فيكون طلاقا."

 (كتاب الطلاق، الباب الأول، الفصل السابع ،1/ 384، ط: رشيدية)

وفيه  أيضا:

"إذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية."

 (كتاب الطلاق، الباب السادس، ‌‌فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به،1/ 472، ط: رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309101048

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں