بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میں فلاں کو تنگ نہیں کروں گا،اگر تنگ کیا تو میں مرتد ہو گیا ،کہہ کر حانث ہونے کا حکم


سوال

اگر کوئی بندہ کہےکہ " میں فلاں بندے کو تنگ نہیں کروں گا،اگر تنگ کیا تو میں مرتد ہوگیا" ،بعد اس نے اس کو تنگ کیا،دراصل میں نے یہ قسم کھائی تھی،پوچھنا یہ ہے کہ ایک مرتد وہ ہے جو باقاعدہ اسلام کو چھوڑ کر دوسرا دین اخیتار کرتاہے، لیکن مجھے اسلام سے بہت حد محبت ہے، کیا یہ قسم توڑنے پر میں اس مرتد کے برابر ہوگیا ہوں؟ میں اب بہت پریشان اور نادم ہوں، شرعی طور راہ نمائی فرمادیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل نے " میں فلاں بندے کو تنگ نہیں کروں گا،اگر تنگ کیا تو میں مرتد ہوگیا"کہنے کے بعد مذکورہ بندے کو تنگ کیا ہے، اس لیے حانث ہوگیا ہے،اس پر قسم توڑنے کا کفارہ لازم ہے،اور کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو دو وقت کا کھاناکھلادے،یا ایک مسکین کو دس دن تک دو وقت کا کھانا کھلادے،یا دس مسکینوں کو ایک ایک جوڑا کپڑا دےدے،یا ہر ایک کو صدقہ فطر کے برابر  غلہ دےدے،اگراس کی طاقت نہ ہوتو تین دن لگاتار قسم کے کفارے کی نیت سے روزے رکھے۔

باقی سائل مذکورہ قسم توڑ کر حانث ہونے سے مرتد نہیں ہوا ہے، البتہ اسے آئندہ اس قسم کے الفاظ استعمال کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

بہشتی زیور میں ہے:

"مسئلہ: اس طرح کہا کہ اگر فلاں کام کروں تو میں مسلمان نہیں تو قسم ہوگئی،اس کے خلاف کرنے سے کفارہ دینا پڑے گا،اور ایمان نہ جائے گا۔"

(قسم کھانے کا بیان،حصہ سوم ، ص:145،ط: توصیف پبلی کیشنز اردو بازار لاہور)

الجوہرۃ النیرۃ میں ہے:

"(وإن قال: ‌إن ‌فعلت ‌كذا ‌فأنا ‌يهودي أو نصراني أو مجوسي أو كافر أو مشرك كان يمينا) حتى إذا حنث في ذلك لزمته كفارة يمين وكذا إذا قال هو بريء من القرآن أو من الإسلام إن فعل كذا فهو يمين وكذا إذا قال: هو بريء من هذه القبلة أو من الصلاة أو من شهر رمضان فهو يمين وهذا كله إذا حلف على المستقبل أما إذا حلف على الماضي مثل أن يقول: هو يهودي أو نصراني أو كافر إن كان فعل كذا وهو يعلم أنه فعله قال محمد بن مقاتل: يكفر لأن كلامه خرج مخرج التحقيق وكتب نصير بن يحيى إلى ابن شجاع يسأله عن ذلك فقال: لا يكفر لأن الكفر بالاعتقاد وهو لم يعتقد الكفر وإنما قصد أن يصدق في مقالته وهذا هو الصحيح."

(كتاب الايمان، اليمن اللغو،ج:2، ص:المطبعة الخيرية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الفصل الثاني في الكفارة:وهي أحد ثلاثة أشياء إن قدر عتق رقبة يجزئ فيها ما يجزئ في الظهار أو كسوة عشرة مساكين لكل واحد ثوب فما زاد وأدناه ما يجوز فيه الصلاة أو إطعامهم والإطعام فيها كالإطعام في كفارة الظهار هكذا في الحاوي للقدسي...فإن لم يقدر على أحد هذه الأشياء الثلاثة صام ثلاثة أيام متتابعات....ولو أعطى مسكينا واحدا عشرة أثواب في مرة واحدة لم يجزئه كما في الطعام وإن أعطاه في كل يوم ثوبا حتى استكمل عشرة أثواب في عشرة أيام أجزأه كما في الطعام."

(كتاب الايمان، الفصل الثاني في الكفارة، ج:2، ص:62،ط:دارالفكر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144405100129

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں