بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

’’میں اللہ کو نہیں مانتی، میں کافر ہوں‘‘ الفاظ کہنے کا حکم کیا ہے؟


سوال

میرے اور بیوی کے درمیان تین دن پہلے کچھ تلخ کلامی ہوئی ،میں نے کہا : کہ اللہ کا واسطہ خاموش ہوجاؤ، تو آگے سے وہ کہنی لگی : کہ’’میں اللہ کو نہیں مانتی،میں کافر ہوں۔‘‘اور جس اللہ نے تمہارے دل میں دوسری عورت کا خیال ڈالا ہے، اس اللہ سے میری لڑائی ہے،،لیکن بعد میں اس کو افسوس ہوا ،اور کلمہ اور استغفار پڑھتی رہی۔ اب سوال یہ ہے:کہ اس کے اسلام کی حالت کیا ہے؟اور دوبارہ اسلا م میں داخل ہونے کےلیے کیا کرنا ہوگا۔میرے اور اس کے درمیان کیا نکاح ختم ہوا ہے یا نہیں؟ اگر ختم ہوا ہے تو دوبارہ تجدیدِ نکاح کرنا پڑے گا ؟اور اس کا طریقۂ کار کیا ہوگا؟

 

جواب

اگر واقعتًا سائل  کی بیوی نے یہ کہا ہے کہ:’’میں اللہ کو نہیں مانتی، میں کافر ہوں‘‘تو  سائل کی بیوی دائرۂ اسلام سے خارج ہوگئی ہے، لہذا سائل کی بیوی پر لازم ہے کہ وہ اپنے ایمان کی تجدید کرے اور صدق دل سے توبہ واستغفار کرےاور آئندہ ایسا نہ کرنے کا عزم کرے ، اس کے ساتھ ساتھ  تجدیدِنکاح بھی کرے،تجدید نکاح سے پہلے دونوں کا باہم میاں بیوی والے تعلقات قائم کرنا درست نہ ہوگا۔ اور نکاح کی تجدید میں نیا مہر بھی ضروری ہوگا۔اور تجدید نکاح کے لیے میاں بیوی کا دو مسلمان عاقل وبالغ مرد یا ایک مسلمان عاقل وبالغ مرد اور دو مسلمان عاقل وبالغ عورتوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول کرلینا کافی ہے۔

درر الحكام شرح غرر الأحكام  میں ہے:

"و في المحيط: من أتى بلفظة الكفر مع علمه أنها كفر إن كان عن اعتقاد لا شك أنه يكفر، وإن لم يعتقد أو لم يعلم أنها لفظة الكفر ولكن أتى بها عن اختيار فقد كفر عند عامة العلماء و لايعذر بالجهل، و إن لم يكن قاصدًا في ذلك بأن أراد أن يتلفظ بشيء آخر فجرى على لسانه لفظة الكفر ... فجرى على لسانه عكسه فلايكفر."

(کتاب الکراھیۃ والاستحسان،صلۃ الرحم،ج:۱،ص:۳۲۴،دار احیاء الکتب العربیۃ)

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر میں ہے: 

"وفي البحر: و الحاصل أن من تكلم بكلمة الكفر هازلًا أو لاعبًا كفر عند الكل، و لا اعتبار باعتقاده، و من تكلم بها خطأً أو مكرهًا لايكفر عند الكلّ، و من تكلم بها عالمًا عامدًا كفر عند الكل."

(باب المرتد، الصبی إذا ارتد،ج:۱،ص:۶۸۸،ط:دار احیاء التراث العربی)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"لو ارتدت ... و صرحوا بتعزيرها خمسة وسبعين، وتجبر على الإسلام وعلى تجديد النكاح زجرا لها بمهر يسير كدينار وعليه الفتوى ولوالجيةقال في النهر: والإفتاء بهذا أولى من الإفتاء بما في النوادر لكن قال المصنف: ومن تصفح أحوال نساء زماننا وما يقع منهن من موجبات الردة مكررا في كل يوم لم يتوقف في الإفتاء برواية النوادر ... وأفتى مشايخ بلخ بعدم الفرقة بردتها زجرًا و تيسيرًا لا سيما التي تقع في المكفر ثم تنكر. قلت: المشقة في التجديد لاتقتضي أن يكون قول أئمة بلخ أولى مما في النوادر، بل أولى مما مر أن عليه الفتوى، و هو قول البخاريين؛ لأن ما في النوادر هو ما يأتي من أنها بالردة تسترق، تأمل."

)کتاب النکاح ،باب نکاح الکافر،ج:۳،ص:۱۹۴،۱۹۵،ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101391

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں