بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 ربیع الاول 1446ھ 08 ستمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

میں آئندہ کسی عورت کے ساتھ زنا نہیں کروں گا ،اگر کیا تو ایک دو تین شرطوں سے میری بیوی طلاق ہوگی


سوال

سائل نے ایک مجلس میں یوں طلاق دی کہ "میں آئندہ کسی عورت کے ساتھ زنا نہیں کروں گا ،اگر کیا تو ایک دو تین شرطوں سے میری بیوی طلاق ہوگی " پھر کچھ عرصہ بعد سائل ایک اجنبی عورت کے ساتھ بغیر کپڑوں کے بستر پر چند منٹ تک لیٹا رہا اور بغیر ہمبستری/دخول کیے انزال ہوگیا ہے۔ یعنی سائل اور مذکورہ عورت دونوں کپڑے اتار کر ایک ساتھ بستر پر چند منٹ تک لیٹے رہے ، لیکن اسی دوران بغیر جماع کے سائل کو انزال ہوگیا ہے۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ اس صورت میں سائل کی بیوی پر شرعاً طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں ؟

جواب

نامحرم مرد و عورت کا آپس میں تعلق رکھنا ناجائز اور حرام ہے اور زنا کرنا کبیرہ گناہ ہے۔ قرآن و حدیث میں اس عمل کی شدید مذمت اور سخت  وعیدات وارد ہوئی ہیں ،   لہذا بے لباس اجنبیہ خاتون کے ہمبستر ہونا، اگرچہ جماع (دخول ) نہ کیا ہو، حرام  تھا، بالخصوص بیوی کے ہوتے ہوئے غیر عورت سے بدکاری کرنا عام زنا سے بدتر گناہ ہے اور اللہ کی نعمت کی ناقدری ہے جس پر سائل اور مذکورہ خاتون کو  صدقِ دل سے توبہ و کثرت سے  استغفار کرنا لازم ہوگا۔

مسند البزار میں ہے:

"عن عبد الله بن بريدة عن أبيه رضي الله عنه : إن السماوات السبع و الأرضين السبع و الجبال ليلعن الشيخ الزاني و إن فروج الزناه لتؤذي أهل النار بنتن ريحها."

(١٠ / ٣١٠، ط: مكتبة العلوم والحكم-المدينة المنورة)

ترجمہ: حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مرویہےکہ: "ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں شادی شدہ زنا کار پر لعنت کرتی ہیں اور جہنم میں ایسے لوگوں کی شرم گاہوں سے ایسی سخت بدبو پھیلے گی جس سے اہلِ جہنم بھی پریشان ہوں گے اور آگ کے عذاب کے ساتھ ان کی رسوائی جہنم میں ہوتی رہے گی۔"

صحيح البخاري میں ہے:

"عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه و سلم: «لا يزني الزاني حين يزني و هو مؤمن، و لا يشرب الخمر حين يشرب و هو مؤمن، و لا يسرق حين يسرق و هو مؤمن، و لا ينتهب نهبة، يرفع الناس إليه فيها أبصارهم حين ينتهبها و هو مؤمن»."

(٣ / ١٣٦، ط: دار طوق النجاة)

ترجمہ: "حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: زنا کرنے والا زنا کرنے کے وقت مؤمن نہیں رہتا، چوری کرنے والا چوری کرنے کے وقت مؤمن نہیں رہتا، اور شراب پینے والا شراب پینے کے وقت مؤمن نہیں رہتا۔"

 صورت میں سائل کے  مذکورہ الفاظ  " میں آئندہ کسی عورت کے ساتھ زنا نہیں کروں گا، اگر کیا تو ایک دو تین شرطوں سے میری بیوی طلاق ہوگی" کہنے کی وجہ سے سائل کی بیوی پر تین طلاقیں معلق ہوگئی تھیں، پس اگر سائل نے اجنبیہ خاتون سے بے لباس ملاقات کے دوران  انزال سے پہلے یا انزال کے بعد دخول نہ کیا ہو، تو شرط نہ پائی جانے کی وجہ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، نکاح بدستور قائم رہے گا،  البتہ اگر  سائل نے  اجنبیہ خاتون سے دخول کیا ہو، تو اس صورت میں اس کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی، اور وہ شوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجائے گی،  شوہر کے لیے بیوی سے رجوع کرنا یا دوبارہ نکاح کرنا جائز نہیں ہوگا، مطلقہ بیوی اپنی عدت (تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو اور عورت کو ایام آتے ہوں، اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش تک، اور اگر ایام ہی نہیں آتے تو تین ماہ تک) گزارنے کے بعد کسی اور شخص سے نکاح کرنے میں آزاد ہوگی،  نکاح اور وظیفہ زوجیت کی ادائیگی کے بعد اگر دوسرا شوہر اسے طلاق دے دیتا ہے، یا وہ خود اپنے شوہر سے طلاق یا خلع حاصل کرلیتی ہے،  یا شوہر کا انتقال ہو جاتا ہے،  جس کے بعد مذکورہ خاتون کی عدت مکمل ہوجائے تو پھر سائل کے لیے اپنی سابقہ بیوی سے دوبارہ نکاح کرنا جائز ہوگا۔

فتاوی دارالعلوم دیوبند  میں ہے:

"اپنی بیوی سے کہا: "یہ عورت مجھ پر تین شرط طلاق ایک دفعہ ہے"  تو کیا حکم ہے ؟

(سو ال ۳۲۰) ایک شخص نے غصہ کی حالت میں اپنی عورت کو یہ کہا کہ یہ عورت مجھ پر تین شرط طلاق ایک دفعہ ہے ، اس طور پر کہہ دیا اور عدت کے اندر زبانی رجعت بھی کر لی ، آیا بغیر نکاح و حلالہ کے یہ عورت اس پر جائز ہوسکتی ہے یا نہیں؟

(جواب) اس صورت میں اس کی زوجہ پر تین طلاق واقع ہوگئی، اور وہ عورت مطلقہ ثلاثہ ہو کر مغلظہ بائنہ ہوگئی، بدون حلالہ کے اس سے شوہر اول دوبارہ نکاح نہیں کرسکتا اور ر جعت صحیح نہیں ہوئی،  کیوں کہ ایک دفعہ تین طلاق دینے سے بھی تین طلاق واقع ہوجاتی ہے۔  

قال في الدر المختار:  والبدعي ثلاث متفرقة.  قال في الشامي:

وکذا بكلمة واحدۃ بالاولی الخ وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين الي أنه يقع ثلث الخ."

( کتاب الطلاق،  ٩ / ١٩٤)

فتاویٰ فریدیہ میں ہے:

"ہمارے بلاد کے عرف میں تین شرط تین دفعہ کو کہا جاتا ہے، اس لیے اس عرف کی بناء پر یہ بیوی مطلقہ مغلظہ ہوئی ہے۔"

(کتاب الطلاق، باب صریح الطلاق، ٥ / ٢٨١)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق."

(كتاب الطلاق، الباب الرابع في الطلاق بالشرط، الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة إن وإذا وغيرهما، ١ / ٤٢٠، ط: دار الفكر)

وفیہ ایضا:

"والأصل في جنس هذه المسائل أنه إذا عقد اليمين على عين موصوفة بصفة فإن كانت الصفة داعية إلى اليمين تقيد اليمين ببقائها وإلا فلا كذا في شرح الجامع الصغير لقاضي خان."

(كتاب الأيمان، الباب الخامس في اليمين على الأكل والشرب وغيرهما، ٢ / ٨٢، ط: دار الفكر)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع  میں ہے:

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة."

(كتاب الطلاق، فصل في حكم الطلاق البائن، ٣ / ١٨٧، ، ط: دار الكتب العلمية بيروت)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144512100895

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں