بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ملٹی لیول مارکیٹنگ کا کیا حکم ہے؟


سوال

ملٹی لیول مارکیٹنگ کا  کیا حکم ہے؟

جواب

ہماری معلومات کے مطابق   ملٹی لیول مارکیٹنگ میں بہت سےمفاسد ہونے کی وجہ سے ان سے منسلک ہونا  ناجائز ہے،  چند ایک کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے:اس میں مصنوعات  بیچنا اصل مقصد نہیں ہے، بلکہ ممبر سازی کے ذریعے  کمیشن در کمیشن کاروبار چلانا  اصل مقصد ہے جو  کہ جوئے کی ایک نئی شکل ہے،  اس کی تفصیل یہ ہے کہ جیسے جوئے میں پیسے لگاکر  یہ امکان بھی ہوتا ہے کہ اسے کچھ نہ ملے اور یہ امکان بھی ہوتا ہے کہ اسے بہت سارے پیسے مل جائیں، اسی  طرح مذکورہ کمپنی سے منسلک ہونے کے بعد کام کرنے میں یہ امکان بھی ہے کہ مذكوره شخص  کو کچھ نہ ملے ،انفرادی طور پر مطلوبہ پوائنٹس تک نہ پہنچنے کی وجہ سے اور یہ امکان بھی ہے کہ اسے بہت سے پوائنٹس مل جائیں،انفرادی طور پر اور ٹیم کی شکل میں مطلوبہ پوائنٹس تک پہنچنے کی وجہ سے۔

نیز شرعی طور پر دلال (ایجنٹ) کو اپنی دلالی کی جو اجرت (کمیشن) ملتی ہے وہ کسی اور کی محنت کے ساتھ مشروط نہیں ہوتی، لیکن مذکورہ کمپنی کے ممبر کی اجرت دوسرے  ما تحت ممبران کی محنت پر مشروط ہوتی ہے جو کہ  شرعاً درست نہیں؛       لہذا ملٹی لیول مارکیٹنگ کے ساتھ منسلک ہونا اور دوسروں کو اس میں شامل کراکے کمیشن وصول کرنا ناجائز ہے۔

البنایہ شرح الہدایۃ میں ہے:

"وقد نهى النبي صلى اللَّه عليه وسلم عن بيع الملامسة والمنابذة. ولأن فيه تعليقًا بالخطر". 

(تعليقًا) ش: أيتعليق التمليكم: (بالخطر)،وفي " المغرب "،الخطر: الإشراف على الهلاك، قالت الشراح: وفيه معنى القمار؛ لأن التمليك لايحتمل التعليق لإفضائه إلى معنى القمار."

 (باب البيع الفاسد،ج:8،ص:158،ط: دار الكتب العلمية)

في الموسوعة الفقهية:

"وقال المحلي: صورة القمار المحرم التردد بين أن يغنم وأن يغرم."

 (حرف الميم،ج:39،ص:404،ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية،الكويت)

فتاوی شامی میں ہے:

"لأن ‌القمار ‌من ‌القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص."

(کتاب الحظر والاباحة،فصل فی البیع،ج: 6،ص:403، ط: سعید)

وفیه أیضا:

"(هو) لغة الزيادة. وشرعا (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنسا بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة."

(‌‌كتاب البيوع، باب الصرف،ج:5،ص:257، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144403102009

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں