میرے اور میری بیوی کے درمیان تین سال پہلے لڑائی ہوئی تو میں اپنی بیوی کو اپنے میکے چھوڑآیا ،میں نے اس لیے میکے چھوڑ دیا تاکہ کچھ جھگڑا کم ہوجائے، پھر اس کے بعد میں نے کئی بار بیوی کو اپنے گھر لانے کی کوشش کی اور میں نے بیوی کو کہا کہ ”میرے ساتھ گھر چلو“اس نے کہا کہ میں آپ کے والدین کے ساتھ گھر میں نہیں رہوں گی مجھے علیحدہ گھر دو گے،تب جاوں گی، جب کہ میں نے بیوی کو گھر میں علیحدہ کمرہ دیا تھا اور سب ضروریات پوری کی تھیں ،اس کے باوجود بھی بار بار گھر لانے کی کوشش کی لیکن میری بیوی نہیں مانی اب میری بیوی کہتی ہے کہ مجھے تین سال کا خرچہ دو ،بچے نہیں ہیں ،تو کیا میرے اوپر میری بیوی کا خرچہ لازم ہے اور میرے لیے ان کو دینا ضروری ہے یا نہیں ؟اب میں بیوی سے علیحدگی اختیار کرنا چاہتا ہوں اور میری بیوی گزشتہ تین سالوں کا نفقہ مانگتی ہے ؟
صورتِ مسئولہ میں سائل کی بیوی اگر سائل کے بار بار بلانے کے باوجود گھر نہیں آئی اور میکے میں بیٹھی رہی تو وہ ”ناشزہ“ (نافرمان) ہونے کی وجہ سے نفقہ کی حق دار نہیں تھی، لہذا اس کا گزشتہ تین سال کے نفقہ کا مطالبہ کرنا شرعاًدرست نہیں اور نہ سائل کے ذمہ واجب ہے۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
وإن نشزت فلا نفقة لها حتى تعود إلى منزله والناشزة هي الخارجة عن منزل زوجها المانعة نفسها منه۔
(الفتاویٰ الھندیة، کتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات،545/1، رشیدیة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144304100542
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن