بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میکائیل، نائل، میرال، مرحا، حوریہ اور حورین نام کے معنی اور نام رکھنے کا حکم


سوال

لڑکے   کے ناموں میں سے میکائیل یا نائل  اور  لڑکی کے ناموں میں سےمیرال ، مِرحا، حور یہ یا حورین ،  ناموں کے معنی اور اسلامی لحاظ سے ٹھیک ہیں ؟

جواب

(1)  میکائیل : ایک مقرب فرشتہ کا نام ہے، اور فرشتوں کے نام پر  نام رکھنا مناسب نہیں ہے، آپ ﷺنے فرشتوں کے نام پر اپنے بچوں کے نام رکھنے سے منع بھی فرمایا ہے،  آپ ﷺ کا ارشاد ہے: ’’سموا بأسماء الأنبياء ولاتسموا بأسماء الملائكة‘‘.(یعنی  ’’تم اپنے بچوں کے نام انبیاء کے نام پر رکھو، فرشتوں کے نام پر مت رکھو‘‘۔)

(2) نائل: اس کے معنی ہیں عطاء کرنے والا، سخی، اور عطیہ۔ یہ نام رکھنا جائز ہے۔

(3)   "میرال": عربی لغات میں تلاش کے باوجود کسی مناسب معنی کے لیے ان کا استعمال نہیں ملا؛  لہٰذا یہ نام نہ رکھا جائے، البتہ اگر کسی اور زبان کا لفظ ہے تو باحوالہ کسی مستند عالم کو دکھا کر حکم معلوم کرلیاجائے۔

’’مِرحا‘‘(میم کے زیر اور ح کے بعد الف کے ساتھ) عربی قواعد کے اعتبار سے درست نہیں ہے،’’مِرحه‘‘(میم کے کسرہ اور آخر میں گول تاء کے ساتھ)  تکبر کے معنیٰ میں بھی آتا ہے اور اناج کے معنیٰ میں بھی آتا ہے؛ لہٰذا غلط معنیٰ کا احتمال ہونے کی وجہ سے یہ نام رکھنا درست نہیں ہے۔

اور    "مَرحا عربی زبان کا لفظ ہے، اس کے تلفظ کے دو طریقے ہیں:

1۔  "مَرَ حا" را پر زبر کے ساتھ  اس کا مطلب ہے" تکبر کرنا"۔ اس معنی کے اعتبار سے یہ نام رکھنا درست نہیں ہے۔

2۔ "مَرْحیٰ"  (را ساکن)  عربی میں یہ لفظ دو صیغے بن سکتاہے:

  1.  ’’مَرحٰی‘‘ (میم کے فتحہ اور ح کے کھڑے زبر کے ساتھ )’’مَرِح‘‘  کی جمع  ہے، اور مرح کے معنی (اترانے والا) یا (ہلکا) کے  آتے ہیں۔ اس معنی کے لحاظ اس تلفظ کے ساتھ یہ نام رکھنا بھی درست نہیں ہے۔
  2.  ’’مَرحیٰ‘‘  (میم کے فتحہ اور ح کے کھڑے زبر یعنی الف مقصورہ  کے ساتھ) جس کا استعمال:   تیر کے نشانے پر لگنے کی صورت میں شاباشی دینے کے لیے ہوتا ہے، اسی طرح   خوشی سے جھومنا، اور چکی کا پاٹ بھی اس کے معنی ہیں۔ (1)  اس معنیٰ کے اعتبار سے یہ نام رکھنا اگرچہ درست ہوگا، لیکن چوں کہ غلط معنیٰ کا احتمال بدستور  رہے گا؛ اس وجہ سےنہ رکھنا بہتر ہے۔

(4) ’’حوریہ‘‘  کے معنی " خوب صورت  دوشیزہ" کے ہیں،  یہ نام رکھا جاسکتا ہے، البتہ صحابیات کے ناموں میں سے کسی نام کا انتخاب زیادہ بہتر ہے۔

(5)  ’’حُوْرین‘‘ (’ح‘ کے ضمہ کے ساتھ) لفظ ’’حُوْر‘‘  کی تثنیہ یا جمع ہوسکتا ہے، اور لفظِ ’’حُوْر‘‘ میں تین احتمال ہیں:

  1- ’’أَحْوَر‘‘ (مذکر صفت) کی جمع ہو۔ اس اعتبار سے یہ نام رکھنا درست نہیں۔

2- ’’حَوْرَاء‘‘ (مؤنث صفت کی جمع ہو)، اس اعتبار سے اس کا معنیٰ ہیں: سفید رنگت والی عورتیں،  ’’حور‘‘ جنت کی عورتوں  کو کہتے ہیں۔ لیکن ’’حُوْر‘‘ مفرد نہیں، بلکہ جمع ہے۔ ان دونوں احتمالات (’’أَحْوَر‘‘کی جمع ہو یا ’’حَوْرَاء‘‘  کی) کے اعتبار سے ’’حُوْر‘‘ کی تثنیہ یا جمع ’’حُوْرین‘‘ درست نہیں ہے۔

3- ’’حُوْر‘‘ (مفرد اسم) ہو، اس کا معنیٰ ہے: نقصان، اور ہلاکت۔ 

خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ نام رکھنا مناسب نہیں ہے، اس کے بجائے بچی کا نام صحابیات مکرمات رضی اللہ عنہن کے ناموں میں سے کسی نام پر رکھنا چاہیے۔

حوالہ جات:

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (15/ 39):

"وَ قد تقرر الْإِجْمَاع على إِبَاحَة التَّسْمِيَة بأسماء الْأَنْبِيَاء عَلَيْهِم الصَّلَاة وَالسَّلَام، وَتسَمى جمَاعَة من الصَّحَابَة بأسماء الْأَنْبِيَاء، وَكره بعض الْعلمَاء فِيمَا حَكَاهُ عِيَاض التسمي بأسماء الْمَلَائِكَة، وَهُوَ قَول الْحَارِث بن مِسْكين، قَالَ: وَكره مَالك التسمي بِجِبْرِيل وإسرافيل وَمِيكَائِيل وَنَحْوهَا من أَسمَاء الْمَلَائِكَة، وَعَن عمر بن الْخطاب رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ أَنه قَالَ: مَا قنعتم بأسماء بني آدم حَتَّى سميتم بأسماء الْمَلَائِكَة".

المعجم الوسيط (2/ 964)
(نَالَ) على فلَان بالشَّيْء نولا ونوالا جاد وَيُقَال نَالَ فلَانا الْعَطِيَّة وبالعطية وَله الْعَطِيَّة وبالعطية أعطَاهُ إِيَّاهَا وَفُلَان بِالْحَدِيثِ سمح بِهِ أَو هم وَيُقَال نَالَ لَهُ أَن يفعل كَذَا حَان وَالشَّيْء حصل عَلَيْهِ (نَالَ) فلَان نيلا ونائلا ونولا صَار كثير النوال ۔۔۔۔

المعجم الوسيط (2/ 967)

(النائل) مَا ينَال وَيدْرك يُقَال أصبت مِنْهُ نائلا والجود والعطية

تاج العروس (7/ 113):

"مرح : (مَرِحَ، كفَرِحَ: أَشِرَ وبَطِرَ) ، والثلاثةُ أَلفاظٌ مترادفةٌ، وَمِنْه قَوْله تَعَالَى: {بِمَا كُنتُمْ تَفْرَحُونَ فِى الاْرْضِ بِغَيْرِ الْحَقّ وَبِمَا كُنتُمْ تَمْرَحُونَ} (غَافِر: 75)

وَفِي المفردَاتِ: المَرَحَ: شِدَّةُ الفَرَحِ والتَّوسُّع فِيهِ.

 (و) مَرِحَ (: اخْتَالَ) ، وَمِنْه قَوْله تَعَالَى: {وَلاَ تَمْشِ فِى الاْرْضِ مَرَحًا} (الإِسراء: 37) أَي متبختِراً مُخْتَالاً.

(و) مَرِحَ مَرَحاً: (نَشِطَ) . فِي (الصِّحَاح) و (الْمِصْبَاح) :

المَرَحُ: شِدَّة الفَرَحِ، والنَّشاط حتّى يُجاوِزَ قَدْرَه، (و) مَرِحَ مَرَحاً، إِذَا خَفَّ، قَالَه ابْن الأَثير. وأَمْرَحَه غيرُه. (وَالِاسْم) مرَاحٌ، (ككِتَاب، وَهُوَ مَرِحٌ) ، ككَتِف (ومِرِّيحٌ، كسكِّين، مِنْ) قَوْم (مَرْحَى ومَرَاحَى) ، كِلَاهُمَا جمْع مَرِحٍ،۔۔۔۔۔۔۔ (ومَرْحَى) مَرّ ذِكرُه (فِي برح) قَالَ أَبو عمرِو بنُ العلاءِ: إِذا رَمَى الرّجلُ فأَصابَ قيل: مَرْحَى لَه، وَهُوَ تَعجبٌ من جَودةِ رَمْيِه. وَقَالَ أُميّة بن أَبي عَائِذ: يُصِيب القَنيصَ وصِدْقاً يَقُول مَرْحَى وأَيْحَى إِذا مَا يُوالِي وإِذا أَخطأَ قيل لَهُ: بَرْحَى. (و) مَرْحَى: (اسمُ ناقةِ عَبْدِ الله بن الزَّبِيرِ)".

تاج العروس (6/ 311):

"(وبَرْحَى) ، على فَعْلَى (: كلمةٌ تُقال عِنْد الخطإِ فِي الرَّمْيِ، ومَرْحَى عِنْد الإِصابة) ، كَذَا فِي (الصّحاح) . وَقد تقدم فِي أَي ح أَنّ أَيْحَى تقال عندِ الإِصابة. وَقَالَ ابْن سَيّده: وللعرب كلمتانِ عِنْد الرَّمْيِ: إِذا أَصابَ قَالُوا: مَرْحَى، وإِذا أَخطأَ قَالُوا: بَرْحَى.

مختار الصحاح (ص: 292) م ر ح:

(الْمَرَحُ) شِدَّةُ الْفَرَحِ وَالنَّشَاطِ وَبَابُهُ طَرِبَ، فَهُوَ (مَرِحٌ) بِكَسْرِ الرَّاءِ وَ (مِرِّيحٌ) بِوَزْنِ سِكِّيتٍ، وَ (أَمْرَحَهُ) غَيْرُهُ، وَالِاسْمُ (الْمِرَاحُ) بِالْكَسْرِ".

قاموس فرنسي عربي إنجليزي - (1 / 2327):

"حورِيَّة ( ج:حور،م:صفات)  : عَذْراءُ جَمِيلَة".

مجلة مجمع اللغة العربية بالقاهرة ـ الأعداد (81 - 102) - (60 / 20):

" حورية أي جميلة كالحور". 

"(اسم) حُورٌ: جمع حَوراء حور: (اسم) الحُورُ : النَّقص والهلاكُ إنه في حُورٍ وبُورٍ : في غير صَنْعة ولا إجادة ، أَو في ضَلالٍ والباطلُ في حُور: في نقْص وتراجُعٍ الحُورُ: جمع حَوْراء نساء الجنّة حُوْر: (اسم) حُوْر : جمع أَحْوَر".

تفسير الطبري = جامع البيان ط هجر (22/ 263):

"القول في تأويل قوله تعالى: {حور مقصورات في الخيام فبأي آلاء ربكما تكذبان لم يطمثهن إنس قبلهم ولا جان فبأي آلاء ربكما تكذبان} [الرحمن: 73] يقول تعالى ذكره مخبرًا عن هؤلاء الخيرات الحسان {حور} [الرحمن: 72] يعني بقول حور: بيض، وهي جمع حوراء، والحوراء: البيضاء وقد بينا معنى الحور فيما مضى بشواهده المغنية عن إعادتها في هذا الموضع. وبنحو الذي قلنا في ذلك قال أهل التأويل".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108201693

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں