بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فرشتوں کے ناموں پر نام رکھنا مناسب نہیں


سوال

ميكائيل نام ركھنا کیسا ہے؟

جواب

میکائیل ایک مقرب فرشتہ کا نام ہے، اور فرشتوں کے نام پر  نام رکھنا مناسب نہیں ہے، آپ ﷺنے فرشتوں کے نام پر اپنے بچوں کے نام رکھنے سے منع بھی فرمایا ہے،  آپ ﷺ کا ارشاد ہے: 

’’سموا بأسماء الأنبياء ولاتسموا بأسماء الملائكة.‘‘

یعنی  ’’تم اپنے بچوں کے نام انبیاء کے نام پر رکھو، فرشتوں کے نام پر مت رکھو‘‘۔

اسی وجہ سے بعض علماء کرام نے فرشتوں کے نام پر نام رکھنے کو مکروہ کہا ہے، علامہ عینی رحمہ اللہ نے عمدہ القاری میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کا مقولہ نقل کیا ہے کہ " تمہارے لیے انسانوں کے نام کافی نہیں ہوئے کہ تم ملائکہ کے نام رکھنے لگے ہو"۔   نیز صحابہ،  تابعین  کے زمانہ میں اور اسی طرح بعد  کے مسلمانوں میں بھی اس طرح کے نام رکھنے کا تعامل نہیں، بلکہ یہ انسانوں کے لیے غیر مانوس نام ہیں،  لہذا کوئی اور اچھا نام مثلاً انبیاءِ کرام علیہم السلام، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، صلحاء میں سے کسی کا نام رکھ لیں۔

شعب الإيمان للبيهقي میں ہے:

"أخبرنا أبو بكر محمد بن إبراهيم الفارسي أنا أبو إسحاق إبراهيم بن عبد الله الأصبهاني نا أبو أحمد محمد بن سليمان بن فارس نا محمد بن إسماعيل قال : قال لي أحمد بن الحارث نا أبو قتادة الشامي ليس بالحراني مات سنة أربع و ستين ومائة نا عبد الله بن جراد قال : صحبني رجل من مؤتة فأتى النبي صلى الله عليه و سلم وأنا معه فقال يا رسول الله ولد لي مولود فما أخير الأسماء ؟ قال إن خير أسمائكم الحارث و همام و نعم الاسم عبد الله و عبد الرحمن و سموا بأسماء الأنبياء و لا تسموا بأسماء الملائكة قال : و باسمك ؟ قال : و باسمي و لا تكتنوا بكنيتي قال البخاري في غير هذه الرواية في إسناده نظر قال و السادسة : أن يختنه كما ".

(الستون من شعب الإيمان و هو باب في حقوق الأولاد ۔۔۔ ج:6، صفحہ: 394، رقم الحدیث: 8636، ط: دار الكتب العلمية - بيروت)

عمدة القاری شرح صحيح البخاری میں ہے:

"وقد تقرر الإجماع على إباحة التسمية بأسماء الأنبياء عليهم الصلاة والسلام وتسمى جماعة من الصحابة بأسماء الأنبياء وكره بعض العلماء فيما حكاه عياض التسمي بأسماء الملائكة وهو قول الحارث بن مسكين قال وكره مالك التسمي بجبريل وإسرافيل وميكائيل ونحوها من أسماء الملائكة وعن عمر بن الخطاب رضي الله تعالى عنه أنه قال ما قنعتم بأسماء بني آدم حتى سميتم بأسماء الملائكة".

(باب قول الله تعالى: {فإن لله خمسه وللرسول} (الأنفال: 14) يعني للرسول قسم ذلك قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنما أنا قاسم وخازن والله يعطي، ج: 15، صفحہ: 36، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

فيض القدير میں ہے:

"(سموا بأسماء الأنبياء ولاتسموا بأسماء الملائكة) كجبريل، فيكره التسمي بها كما ذكره القشيري، ويسن بأسماء الأنبياء، ومن ذهب كعمر إلى كراهة التسمي بأسماء الأنبياء كأنه نظر؛ لصون أسمائهم عن الابتذال وما يعرض لها من سوء الخطاب عند الغضب وغيره".

(حرف السین، ج: 4، صفحہ: 113، رقم الحدیث: 4717، ط: المكتبة التجارية الكبرى - مصر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144502101710

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں