من مات وعلیه صوم صام عنه ولیه.
اس روایت کی تحقیق مطلوب ہے، اگر یہ روایت صحیح ہے تو اس پر عمل کیسے ہو گا ؟
حدیث کا درجہ:
یہ حدیث سندًا صحیح ہے، امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے اس روایت کو نقل فرمایا ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں:
"عن عائشة رضي الله عنها: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «من مات وعليه صيام صام عنه وليه."
(صحيح البخاري، كتاب الصوم، باب من مات وعليه صوم، الرقم: 1952، 3: 35، دار طوق النجاة، ط: الأولى، 1422ھ)
"ترجمہ: جو شخص فوت ہو،اور اس پر واجب روزے باقی ہوں،تو اس کا ولی اس کی جانب سے روزے رکھ سکتا ہے۔"
حدیث پر عمل کی صورت:
اس حدیث مبارک کے مطلب میں ائمہ فقہاء کی مختلف آراء ہیں، ائمہ حنفیہ کے نزدیک اس پر عمل کی صورت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص فوت ہو جائے، اور اس پر واجب روزے رہتے ہوں (یعنی کفارہ کے روزے، نذر کے روزے، یا قضا کے روزے ہوں) اور اس نے اس كی وصیت بھی کی ہو، تو اس کے ولی کو چاہیے کہ اس کے مال سے ان روزوں کا فدیہ دےدے، اور فدیہ گندم كا نصف صاع،اور جو، كجھور ،اور کشمش وغیرہ کا ایک صاع ہوگا۔ (عمدة القاري، باب من مات وعليه صوم، 11: 59، دار إحياء التراث العربي)
اس مطلب کی تائید کئی صحابه كرام رضوان الله عليهم اجمعين كي روایت سےبھی ہوتی ہے، جن میں حضرت ابن عباس اور عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی روایات سر فہرست ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت:
"عن ابن عباس، قال: «لايصلي أحد عن أحد، و لايصوم أحد عن أحد و لكن يطعم عنه مكان كل يوم مدًّا من حنطة."
(السنن الكبرى للنسائي، باب صوم الحي عن الميت و ذكر اختلاف الناقلين للخبر، في ذلك،الرقم: 2930، 3: 257، ط: الأولى، 1421ھ)
"ترجمه: حضرت ابن عباس رضي الله تعالي فرماتے هيں کہ كوئي شخص كسي دوسرے شخص كي طرف سے نماز پڑھ سكتا هے، نه روزه ركھ سکتا ہے، لیکن دوسرے کی طرف سے ہر دن کے بدلہ گندم کا ایک مد بطورِ فدیہ کھانا کھلا سکتا ہے۔"
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی روایت:
" ما أخرجه الطحاوي عن عمرة ابنة عبد الرحمن قالت: سألت عائشة رضي الله عنها، فقلت لها: إن أمي توفيت وعليها رمضان، أيصلح أن أقضي عنها؟ فقالت: " لا , ولكن تصدقي عنها مكان كل يوم على مسكين , خير من صيامك عنها."
"ترجمه: امام طحاوی عمرة بن عبد الرحمن كی روایت نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عائشۃ رضی اللہ تعالی عنہا سے دریافت کیا کہ میری والدہ فوت ہو گئی ہیں، اور ان پر رمضان کے قضاء روزے ہیں، کیا یہ مناسب ہوگا کہ میں ان کی طرف سے روزے رکھوں؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں! لیکن آپ ان کی طرف سے ہر دن کے بدلے ایک مسکین پر صدقہ کریں، یہ آپ کے روزہ رکھنے سے بہتر ہے۔"
(شرح مشکل الآثار للطحاوی، باب بیان مشکل ما روي عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم في الواجب فيمن مات وعليه صيام هل هو الصيام أو الإطعام عنه، الرقم: 2397، 6: 178، مؤسسۃ الرسالۃ ، ط: الأولى، 1415ھ)
نوٹ: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا پہلی روایت کی راویہ ہیں، اور اس روایت میں گویا اس پر عمل کرنے کی صور ت ،اور اس کی تفسير بيان فرما رہی ہیں، اور اہلِ علم كے ہاں راوی کی تفسیر زیادہ معتبر اور قابل ترجیح ہوتی ہے۔فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144109202447
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن