بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میں نے انہیں فارغ کردیا بیوی کے مطالبہ طلاق پے کہنے سے وقوع طلاق


سوال

میری شادی کو ڈھائی سال ہوئے ہیں، میری بیوی مجھ سے کافی وقت سے طلاق کا مطالبہ کر رہی تھی، لیکن کچھ ٹائم پہلے یہ لڑائی جھگڑے اس حد تک چلے گئے ،مجھے یہ قدم اٹھانا پڑا، میں نے اس دوران ان کے والد صاحب کو کال کی کہ انہیں آکر سمجھائیں، لیکن دو سے تین بار کہنے پر بھی وہ میرے گھر تشریف نہ لائےاور چوتھے دن بھی جب لڑائی جھگڑا کم نہ ہوا اور مزید اس میں بگاڑ پیدا ہوا، تو ان کے والد صاحب کو میں نے بلانا چاہا لیکن وہ نہیں آئے،  اور میں نے ان کے والد صاحب کو کال پر یہ الفاظ ادا کیے ،(میں اپنے پورے ہوش و حواس میں یہ بات کر رہا ہوں میں انہیں فارغ کرتا ہوں آپ آئیں اور انہیں لے جائیں)میں نے انہیں ڈرانے کے لیے کال پر یہ الفاظ ادا کیے اور یہی وجہ تھی کہ میں نے طلاق کی جگہ فارغ کا لفظ استعمال کیا اس سب میں یہ بات جب ان کے والد صاحب سے کر رہا تھا ، میں نے اپنے کمرے سے ہٹ کر یہ بات کی،  لیکن میری وائف کا کہنا یہ تھا،  کہ انہوں نے یہ بات اپنے کانوں سے سن لی، اور اس دوران پھر جیسے ہی ہماری بات ہوئی ، انہوں نے یہی کہا کہ آپ کی طلاق واقع ہو چکی ہے ، میں نے دو مہینے 10 دن کے بعد ان سے رجوع کیااور رجوع کے طریقے میں ہم نے اللہ پاک کے حضور توبہ کر کے اپنی زندگی کا آغاز شروع کر دیا  بغیر کسی نکاح کے،  اس دوران ہر کسی نے ہمیں یہی مشورہ دیا کہ آپ کی پہلی طلاق ہے، پہلی طلاق کے بعد تجدید نکاح نہیں ہوتا اور میں نے یہ طلاق مارچ کے مہینے میں دی اور مئی کے آخری دنوں میں رجوع کیا اور رجوع کے بعد ہم ڈیڑھ سے دو مہینہ ساتھ رہے ہماری انڈرسٹینڈنگ نہیں ہو سکی، میری بیوی نے مجھ سے دوبارہ طلاق کا مطالبہ شروع کر دیا اور لڑائی جھگڑے اس حد تک چلے گئے،  کہ مجھے عدالت کے ذریعے کاغذات تیار کروانے پڑے ان کاغذات میں طلاق کی تحریر کچھ اس طرح تھی کہ (میں اپنے ہوش و حواس میں اپنی بیوی کو طلاق ثلاثہ دیتا ہوں یعنی کہ طلاق دیتا ہوں یہ کہ بعد از طلاق ثلاثہ میرا مذکوریہ سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے اور نہ ہی آئندہ ہوگا، مذکوریہ اپنی عدت کی مدت پوری کرنے کے بعد باقی ماندہ زندگی جس طرح گزارے تو اس کا مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا اور مذکوریہ کو یہ حق حاصل ہوگا کہ بات اس تکمیل عدت وقت ثانی جب جہاں اور جس سے چاہے نکاح کرے تو مجھ کو اعتراض نہیں ہوگا)اور اس کے بعد میں نے ان کاغذات پر دو گواہوں کی موجودگی میں (ایک دفعہ دستخط کیا)ہے،  لیکن میرے کاغذ بنوانے کے کچھ دن ہی بعد مجھ سے میری بیوی نے رابطہ کیا میں آپ کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں اور میں اپنی تمام غلطیوں پر نادم ہوں اور یہ کاغذات 7اکتوبر 2023 کو تیار ہوئے،  اور مجھے اسی مہینے کے آخر میں ملے ،لیکن یہ کاغذات میری بیوی کے ساتھ ہونے والی اس کال کے بعد میں نے ابھی تک انہیں رجسٹری نہیں کروائی ہمیں بتائیں کہ ہماری طلاق ہو چکی ہے یا نہیں؟اور ہمارا رجوع کا طریقہ بھی صحیح تھا یا نہیں ؟ اس پر بھی سوال بنے کافی،اس بارے میں راہ نمائی فرما دیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائل سے اس کی بیوی باربار طلاق کا مطالبہ کررہی تھی،تو شوہر کے یہ الفاظ کہ" میں نے انہیں فارغ کردیا ہے"سےایک  طلاق بائن  واقع ہوئی تھی ، تجدید نکاح لازمی تھا،پھر اس کے  بعد بغیر نکاح کے  میاں بیوی کے طور پر  دونوں کا ساتھ رہنا بالکل ناجائز اور حرام تھا،اور اتنے عرصے ساتھ رہنے کی وجہ سے  جو حرام کاری کا ارتکاب ہوا ہے،  اس پر اللہ تعالیٰ کے حضور خوب توبہ و استغفار کریں،البتہ اس کے بعد باقی دی گئی طلاقیں  واقع نہیں ہوئیں ،اب اگر دونوں ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو نئے مہر کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہے، اور اس کے بعد  شوہر کو آئندہ کے لیے صرف دو طلاقوں کا اختیار ہو گا؛ لہذا شوہر کو چاہیے کہ خوب احتیاط کرے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"(الفصل الخامس في الكنايات) لايقع بها الطلاق إلا بالنية أو بدلالة حال كذا في الجوهرة النيرة. ثم الكنايات ثلاثة أقسام: (ما يصلح جوابا لا غير) أمرك بيدك، اختاري، اعتدي (وما يصلح جوابا وردا لا غير) اخرجي اذهبي، اعزبي، قومي، تقنعي، استتري، تخمري (وما يصلح جوابا وشتما) خلية، برية، بتة، بتلة، بائن، حرام، والأحوال ثلاثة (حالة) الرضا (وحالة) مذاكرة الطلاق بأن تسأل هي طلاقها أو غيرها يسأل طلاقها (وحالة) الغضب، ففي حالة الرضا لايقع الطلاق في الألفاظ كلها إلا بالنية والقول قول الزوج في ترك النية مع اليمين، وفي حالة مذاكرة الطلاق يقع الطلاق في سائر الأقسام قضاء إلا فيما يصلح جواباً ورداً فإنه لايجعل طلاقا كذا في الكافي وفي حالة الغضب يصدق في جميع ذلك لاحتمال الرد والسب إلا فيما يصلح للطلاق ولا يصلح للرد والشتم كقوله: اعتدي واختاري وأمرك بيدك فإنه لايصدق فيها كذا في الهداية. وألحق أبو يوسف - رحمه الله تعالى - بخلية وبرية وبتة وبائن وحرام أربعة أخرى ذكرها السرخسي في المبسوط وقاضي خان في الجامع الصغير وآخرون وهي لا سبيل لي عليك، لا ملك لي عليك، خليت سبيلك، فارقتك ولا رواية في خرجت من ملكي، قالوا هو بمنزلة خليت سبيلك، وفي الينابيع ألحق أبو يوسف - رحمه الله تعالى - بالخمسة ستة أخرى وهي الأربعة المتقدمة وزاد خالعتك والحقي بأهلك هكذا في غاية السروجي."

(کتاب الطلاق،الباب الثانی فی ایقاع الطلاق،ج:1،ص:375، ط:دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"والكنايات ثلاث ما يحتمل الرد أو ما يصلح للسب، أو لا ولا (فنحو اخرجي واذهبي وقومي) تقنعي تخمري استتري انتقلي انطلقي اغربي اعزبي من الغربة أو من العزوبة (يحتمل ردا.......(تتوقف الأقسام) الثلاثة تأثيرا (على نية) للاحتمال والقول له.......(وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا (وفي مذاكرة الطلاق) يتوقف (الأول فقط)."

(كتاب الطلاق، باب الكنايات، ج:3، ص:298، ط:سعيد)

بدائع الصنائع  میں ہے: 

"فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة، والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق، وزوال الملك أيضاً حتى لايحل له وطؤها إلا بنكاح جديد ولا يصح ظهاره، وإيلاؤه ولايجري اللعان بينهما ولايجري التوارث ولايحرم حرمة غليظة حتى يجوز له نكاحها من غير أن تتزوج بزوج آخر؛ لأن ما دون الثلاثة - وإن كان بائنا - فإنه يوجب زوال الملك لا زوال حل المحلية."

(کتاب الطلاق، فصل فی حکم الطلاق البائن، ج:3، ص:187، ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے  :

"(والموطوءة بشبهة) ومنه تزوج امرأة الغير غير عالم بحالها كما سيجيء، وللموطوءة بشبهة أن تقيم مع زوجها الأول وتخرج بإذنه في العدة؛ لقيام النكاح بينهما، إنما حرم الوطء حتى تلزمه نفقتها وكسوتها، بحر، يعني إذا لم تكن عالمةً راضيةً كما سيجيء ... (وإذا وطئت المعتدة بشبهة)  ولو من المطلق (وجبت عدة أخرى) لتجدد السبب (وتداخلتا، والمرئي) من الحيض (منها، و) عليها أن (تتم) العدة (الثانية إن تمت الأولى) وكذا لو بالأشهر، أو بهما لو معتدة وفاة".

"(قوله: بشبهة) متعلق بقوله: وطئت، وذلك كالموطوءة للزوج في العدة بعد الثلاث بنكاح، وكذا بدونه إذا قال: ظننت أنها تحل لي، أو بعدما أبانها بألفاظ الكناية، وتمامه في الفتح، ومفاده أنه لو وطئها بعد الثلاث في العدة بلا نكاح عالماً بحرمتها لاتجب عدة أخرى؛ لأنه زنا، وفي البزازية: طلقها ثلاثًا ووطئها في العدة مع العلم بالحرمة لاتستأنف العدة بثلاث حيض، ويرجمان إذا علما بالحرمة ووجد شرائط الإحصان، ولو كان منكرًا طلاقها لاتنقضي العدة، ولو ادعى الشبهة تستقبل. وجعل في النوازل البائن كالثلاث والصدر لم يجعل الطلاق على مال والخلع كالثلاث، وذكر أنه لو خالعها ولو بمال، ثم وطئها في العدة عالمًا بالحرمة تستأنف العدة لكل وطأة وتتداخل العدد إلى أن تنقضي الأولى، وبعده تكون الثانية والثالثة عدة الوطء لا الطلاق حتى لايقع فيها طلاق آخر ولاتجب فيها نفقة اهـ وما قاله الصدر هو ظاهر".

( كتاب الطلاق، ج:3، ص: 518،  ط: سعید)

وفیہ أیضاً:

"(‌وينكح ‌مبانته ‌بما ‌دون ‌الثلاث ‌في ‌العدة ‌وبعدها ‌بالإجماع) ومنع غيره فيها لاشتباه النسب."

(‌‌كتاب الطلاق، باب الرجعة، مطلب في العقد على المبانة، ج:3، ص:409، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101637

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں