بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ذو القعدة 1445ھ 15 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

محض ہاتھ چومنے سے حرمتِ مصاہرت کا حکم


سوال

میں نے ایک دن حرمتِ مصاہرت والا بیان سنا، اس کے بعد میں ہر وقت پریشانی میں مبتلا رہتاہوں، میں کوئی کام کرتا ہوں ٹینشن لگ جاتی ہے، کہ کہیں کوئی ایسا ویسا کام نہ کر دیا ہو ،میری ساس کی والدہ نے میرا ہاتھ چوما مجھے پریشانی ہو گئی، کہیں شہوت تو نہیں تھی،  مجھے کنفرم بھی نہیں ہے،  پھر میں نے اپنے بھتیجےکو اٹھایا اور مجھے قطرے آۓ،  مجھے ٹینشن ہو گئی کہ میرے ذہن میں کوئی  ایسی ویسی بات تو نہیں تھی،  مجھے ویسے بھی قطرے آنے کا مسٔلہ ہے، لیکن اب میں سمجھ نہیں پا رہا کہ کہیں کوئی ایسی ویسی بات تو نہیں تھی، کسی کے ساتھ بھی بیٹھتا ہوں تو ایسے خیالات آتے ہیں، دو تین بار ایسا ہوا کہ بھتیجا اٹھاۓ ہوۓ مجھے قطرے آۓ ہیں، ایسا ویسا میں سوچ بھی نہیں سکتا ،مگر ذہن میں کیا تھا؟یاد نہیں، اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں ساس کی والدہ کےمحض ہاتھ کے چومنے سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوئی، کیوں کہ اس وقت شہوت نہیں تھی، سائل کو صرف وہم ہے،،اسی طرح  کسی کے ساتھ بھی بیٹھنے سے یا بچے کو گود میں اٹھانے سے مختلف خیالات آنا وسوسوں کی بیماری ہے، اور ان کا علاج یہ ہے کہ ان کی طرف بالکل دھیان نہ دیا جائے، اور دل میں جگہ نہ دی جائے، ان کے مقتضی پر عمل یا لوگوں کے سامنے ان کا اظہار نہ ہو، بلکہ ان کا خیال جھٹک کر ذکر اللہ کی کثرت کا اہتمام کرنا چاہیے، اور ساتھ ساتھ مندرجہ ذیل اعمال  کی پابندی کریں:

(1)أعُوذُ بِالله (2) اٰمَنْتُ بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهکا ورد کرے۔ (3) هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْم (4) نیز رَبِّ أَعُوْذُبِكَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّیٰطِیْنِ وَ أَعُوْذُ بِكَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ کا کثرت سے ورد بھی ہر طرح کے شیطانی شکوک ووساوس کے دور کرنے میں مفید ہے۔ 

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وكما تثبت هذه الحرمة بالوطء تثبت بالمس والتقبيل والنظر إلى الفرج بشهوة، كذا في الذخيرة. ثم المس إنما يوجب حرمة المصاهرة إذا لم يكن بينهما ثوب، أما إذا كان بينهما ثوب فإن كان صفيقا لا يجد الماس حرارة الممسوس لا تثبت حرمة المصاهرة. ولو مس شعرها بشهوة إن مس ما اتصل برأسها تثبت وإن مس ما استرسل لا يثبت. والشهوة تعتبر عند المس والنظر حتى لو وجدا بغير شهوة ثم اشتهى بعد الترك لا تتعلق به الحرمة. وحد الشهوة في الرجل أن تنتشر آلته أو تزداد انتشارا إن كانت منتشرة، كذا في التبيين. وهو الصحيح، كذا في جواهر الأخلاطي. وبه يفتى، ... هذا الحد إذا كان شابا قادرا على الجماع فإن كان شيخا أو عنينا فحد الشهوة أن يتحرك قلبه بالاشتهاء إن لم يكن متحركا قبل ذلك ويزداد الاشتهاء إن كان متحركا، كذا في المحيط. وحد الشهوة في النساء والمجبوب هو الاشتهاء بالقلب والتلذذ به إن لم يكن وإن كان فازدياده، كذا في شرح النقاية للشيخ أبي المكارم. ووجود الشهوة من أحدهما يكفي وشرطه أن لا ينزل حتى لو أنزل عند المس أو النظر لم تثبت به حرمة المصاهرة. ويشترط أن تكون المرأة مشتهاة، كذا في التبيين. والفتوى على أن بنت تسع محل الشهوة لا ما دونها."

(کتاب النکاح، الباب الثالث، ج:1، ص:374/375، ط:مكتبه رشيديه)

فتاوی شامی میں ہے:

"وثبوت الحرمة بلمسها مشروط بأن يصدقها، ويقع في أكبر رأيه صدقها وعلى هذا ينبغي أن يقال في مسه إياها لا تحرم على أبيه وابنه إلا أن يصدقاه أو يغلب على ظنهما صدقه".

(کتاب النکاح، فصل فى المحرمات، ج:3، ص:33، ط:ايج ايم سعيد)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144309100396

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں