بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

محرم کے بغیر عمرہ پر جانا / عمرہ پر جانا چاہیے یا بھائی بہن کر مدد کرنی چاہیے؟


سوال

میں SOS ویلیج میں ملازم ہوں اور اپنی بیٹی، چند بہنوں اور بہنوئی کیساتھ عمرے کا ارادہ رکھتی ہوں، لیکن شاید وہ زیادہ دن کیلئے جائیں اور میرے پاس کم وقت ہو گا، کیونکہ میرے ذمہ  10بچوں کی دیکھ بھال ہے ،اس وجہ سے زیادہ چھٹی نہیں مل سکے گی۔ میرا سفر کا کوئی تجربہ بھی نہیں ہے،جس کی وجہ سے  میرا یک طرفہ  سفر دشوار ہو سکتا ہے۔

دوسری طرف میرے کچھ بہن بھائی قرض دار بھی ہیں اور ان کا گھر مسلسل قرضوں میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔ میرے پاس دونوں میں سے کوئی ایک کام کرنے کا اختیار ہے (ایک بہن کا کچھ قرض اتار سکتی ہوں اور بھائی کا کچھ قرض اتار کر چند ماہ کچھ معاونت کر سکتی ہوں، اللّٰہ سے اس امید کے ساتھ کہ حالات تبدیل ہو جائیں گے ان شااللہ)، مشورہ درکار ہے۔

جواب

صورت مسئولہ میں پہلی بات تو یہ ہے کہ سائلہ  کا اپنے شوہر یا دیگر کسی محرم مرد کے بغیر عمرہ کا سفر  کرنا شرعا جائز  نہیں ، ،  اگر سائلہ کے ساتھ  اس عمرہ کے سفر کے لیے کوئی محرم موجود ہو ، جو مکمل سفر یعنی جانا اور آنا دونوں  سائلہ کے ساتھ کرے تو  سائلہ کے لیے عمرہ پر جانے کی اجازت ہے ۔

باقی یہ کہ اگر محرم موجود ہو تو سائلہ عمرہ پر جائے یا اپنے بھائی /بہن  کے قرض اتارنے میں ان کی مدد کرے ،تو اس میں یہ تفصیل ہے کہ عمرہ پر جانا بھی نیک کا م ہے اور اپنے بھائی / بہن کی مدد کرنا بھی نیک کام ہے ،اس وقت جس کام کی ضرورت زیادہ ہو اس میں ثواب زیادہ ہوگا ،لہذا  سائلہ حالات دیکھ کرخود  فیصلہ کرلے ،اگر بھائی /بہن بہت زیادہ ضرورت مند ہیں تو فی الحال ان کی مدد کرلے اور اللہ پاک سے دعا کرے کہ بعد میں اس کو  حج / عمرہ  کی سعادت عطا فرمادے ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(و منها المحرم للمرأة) شابة كانت أو عجوزا إذا كانت بينها وبين مكة مسيرة ثلاثة أيام هكذا في المحيط، وإن كان أقل من ذلك حجت بغير محرم كذا في البدائع والمحرم الزوج، و من لايجوز مناكحتها على التأبيد بقرابة أو رضاع أو مصاهرة، كذا في الخلاصة. و يشترط أن يكون مأمونًا عاقلًا بالغًا حرًّا كان أو عبدًا كافرًا كان أو مسلمًا، هكذا في فتاوى قاضي خان."

(کتاب الحج، باب اول ج نمبر ۱ ص نمبر ۲۱۸،دار الفکر)

وفي الدر المختار وحاشية ابن عابدين:

"واختلف في الصدقة ورجح في البزازية أفضلية الحج لمشقته في المال والبدن جميعا، قال: وبه أفتى أبو حنيفة حين حج وعرف المشقة.

[مطلب في تفضيل الحج على الصدقة]

 (قوله ورجح في البزازية أفضلية الحج) حيث قال الصدقة أفضل من الحج تطوعا، كذا روي عن الإمام لكنه لما حج وعرف المشقة أفتى بأن الحج أفضل، ومراده أنه لو حج نفلا وأنفق ألفا فلو تصدق بهذه الألف على المحاويج فهو أفضل لا أن يكون صدقة فليس أفضل من إنفاق ألف في سبيل الله تعالى، والمشقة في الحج لما كانت عائدة إلى المال والبدن جميعا فضل في المختار على الصدقة. اهـ. قال الرحمتي: والحق التفصيل، فما كانت الحاجة فيه أكثر والمنفعة فيه أشمل فهو الأفضل كما ورد «حجة أفضل من عشر غزوات» وورد عكسه فيحمل على ما كان أنفع، فإذا كان أشجع وأنفع في الحرب فجهاده أفضل من حجه، أو بالعكس فحجه أفضل، وكذا بناء الرباط إن كان محتاجا إليه كان أفضل من الصدقة وحج النفل وإذا كان الفقير مضطرا أو من أهل الصلاح أو من آل بيت النبي - صلى الله عليه وسلم - فقد يكون إكرامه أفضل من حجات وعمر وبناء ربط. كما حكى في المسامرات عن رجل أراد الحج فحمل ألف دينار يتأهب بها فجاءته امرأة في الطريق وقالت له إني من آل بيت النبي - صلى الله عليه وسلم - وبي ضرورة فأفرغ لها ما معه، فلما رجع حجاج بلده صار كلما لقي رجلا منهم يقول له تقبل الله منك، فتعجب من قولهم، فرأى النبي - صلى الله عليه وسلم - في نومه وقال له: تعجبت من قولهم تقبل الله منك؟ قال نعم يا رسول الله؛ قال: إن الله خلق ملكا على صورتك حج عنك؛ وهو يحج عنك إلى يوم القيامة بإكرامك لامرأة مضطرة من آل بيتي؛ فانظر إلى هذا الإكرام الذي ناله لم ينله بحجات ولا ببناء ربط."

 (كتاب الحج,باب الهدي,فروع في الحج,رد المحتار2/ 621ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144403100875

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں