بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گاؤں میں نامکمل تعمیر شدہ مسجد میں جمعہ کا قیام / محراب صف کے درمیان نہ ہونے کی صورت میں امام کا محراب میں کھڑا ہونا


سوال

 ایک گاؤں  میں مسجد کا تعمیری کام  چل رہا ہے،  ابھی مکمل نہیں ہوا  ہے،  ایک طرف لوگوں نے جھونپڑی  ڈال کر نماز پنجگانہ ادا کرنا شروع کر دی ہے ، اب لوگ جمعہ قائم کرنے کے  لیے اصرار کر رہے ہیں تو کیا گاؤں میں جمعہ قائم کرسکتے ہیں یا نہیں، حال آں کہ  دوسری مساجد میں جمعہ کی نماز ہو رہی ہے؟

اور یہ بتائیں کہ مسجد   کی محراب  وسط  میں نہ ہو کر ایک طرف ہے یعنی نمازی حضرات داہنی طرف سات یا آٹھ ہیں اور بائیں طرف تین یا چار آدمی ہیں تو ایسی صورت میں امام کا محراب میں کھڑے ہو کر نماز پڑھانا درست ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ جمعہ جائز ہونے کی شرائط میں سے شہر  یا ایسے  بڑے قصبے (بڑے گاؤں) کا ہونا بھی  شرط ہے، بڑے گاؤں سے  مراد یہ  ہے کہ وہ گاؤں اتنا بڑا ہو جس کی مجموعی آبادی کم از کم ڈھائی تین ہزار نفوس پر مشتمل ہو، اس گاؤں میں ایسا بڑا بازار ہو، جس میں روز مرہ کی تمام اشیاء با آسانی مل جاتی ہوں، اس گاؤں میں، تھانہ،  ڈاک خانہ، ہسپتال، اور قاضی مقرر ہو ۔ اور جس گاؤں میں یہ شرائط نہ پائی جائیں تو اس جگہ جمعہ وعیدین کی نماز قائم کرنا جائز نہیں۔ ایسے گاؤں میں جمعہ کےدن ظہرکی نماز پڑھی جائے گی۔

لہذا اگر مذکورہ گاؤں  میں اوپر ذکر کردہ  شرائط پائی جاتی ہیں تو وہاں جمعہ کرنا جائز ہے، اگرچہ مسجد کی تعمیر مکمل نہ ہوئی ہو، اور اگر  اس گاؤں میں مذکورہ بالا شرائط نہیں پائی جاتیں تو  وہاں جمعہ کرنا جائز نہیں ہوگا اگرچہ مسجد کی تعمیر مکمل ہوجائے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 137):

"(ويشترط لصحتها) سبعة أشياء:الأول: (المصر وهو ما لايسع أكبر مساجده أهله المكلفين بها) وعليه فتوى أكثر الفقهاء، مجتبى؛ لظهور التواني في الأحكام، وظاهر المذهب أنه كل موضع له أمير وقاض قدر على إقامة الحدود كما حررناه فيما علقناه على الملتقى. وفي القهستاني: إذن الحاكم ببناء الجامع في الرستاق إذن بالجمعة اتفاقا على ما قاله السرخسي وإذا اتصل به الحكم صار مجمعاً عليه فليحفظ."

2۔   امام کے لیے مقتدی کی صفوں کے آگے  بالکل درمیان میں کھڑا ہونا سنت ہے،  بلاعذر   صف کے دائیں یا بائیں طرف  ہو کر نماز پڑھنا مکروہ ہے، مساجد میں محراب اسی غرض سے بنائیں جاتے ہیں؛ تاکہ  امام صف کے بالکل درمیان میں قیام کرسکے،  اور مساجد میں محراب بنانا مسلمانوں کا شعار رہا ہے، اور  امام کے لیے محراب کے سامنے کھڑے ہوکر نماز پڑھانے پر امت کا تعامل ہے، لہذا  بلاضرورت محراب سے ہٹ کر نماز پڑھانا مکروہ اور  تعامل امت کے  خلاف ہے۔   

اس لیے  مساجد بناتے وقت اس کا خوب اہتمام کرنا چاہیے کہ  محراب صف بالکل درمیان میں بنایا جائے، اگر کبھی   غلطی سے درمیان سے ہٹ کر محراب بن جائے تو اس کو صحیح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

مذکورہ تفصیل کی رو سے صورتِ  مسئولہ  میں امام محراب کے  سامنے نماز پڑھائے تو یہ جائز ہے، البتہ اس کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 646):

’’قلت: أي لأن المحراب إنما بني علامةً لمحل قيام الإمام؛ ليكون قيامه وسط الصف كما هو السنة، لا لأن يقوم في داخله، فهو وإن كان من بقاع المسجد لكن أشبه مكاناً آخر، فأورث الكراهة، ولايخفى حسن هذا الكلام، فافهم، لكن تقدم أن التشبه إنما يكره في المذموم وفيما قصد به التشبه لا مطلقاً، ولعل هذا من المذموم، تأمل. هذا وفي حاشية البحر للرملي: الذي يظهر من كلامهم أنها كراهة تنزيه، تأمل اهـ

[تنبيه]
في معراج الدراية من باب الإمامة: الأصح ما روي عن أبي حنيفة أنه قال: أكره للإمام أن يقوم بين الساريتين أو زاوية أو ناحية المسجد أو إلى سارية لأنه بخلاف عمل الأمة. اهـ. وفيه أيضاً: السنة أن يقوم الإمام إزاء وسط الصف، ألا ترى أن المحاريب ما نصبت إلا وسط المساجد وهي قد عينت لمقام الإمام. اهـ. وفي التتارخانية: ويكره أن يقوم في غير المحراب إلا لضرورة اهـ ومقتضاه أن الإمام لو ترك المحراب وقام في غيره يكره ولو كان قيامه وسط الصف لأنه خلاف عمل الأمة، وهو ظاهر في الإمام الراتب دون غيره والمنفرد، فاغتنم هذه الفائدة فإنه وقع السؤال عنها ولم يوجد نص فيها‘‘.

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200964

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں