بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں محراب بنانا


سوال

مسجد میں محراب بنانے کی شرعی حیثیت سے آگاہ فرمائیں؟

جواب

مسجد کے مسجد ہونے کے لیے  کوئی مخصوص شکل و وضع لازم نہیں کی گئی، لیکن چند چیزیں مسجد کی مخصوص علامت کی حیثیت میں معروف ہیں، ایک ان میں سے مسجد کی محراب ہے، جو قبلہ کا رُخ متعین کرنے کے لیے تجویز کی گئی ہے۔

حافظ بدرالدین عینی رحمہ اللہ ”عمدۃ القاری“ میں لکھتے ہیں:

”ذکر أبوالبقاء أن جبریل علیه الصلاة والسلام وضع محراب رسول الله صلی الله علیه وسلم مسامة الکعبة، وقیل: کان ذلك بالمعاینة بأن کشف الحال وأزیلت الحوائل فرأی رسول الله صلی الله علیه وسلم الکعبة فوضع قبلة مسجده علیها.“ (عمدة القاري شرح بخاری، الجزء الرابع ص:۱۲۶، طبع دارالفکر، بیروت)

ترجمہ:…”اور ابوالبقاء نے ذکر کیا ہے کہ جبریل علیہ السلام نے کعبہ کی سیدھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے محراب بنائی اور کہا گیا ہے کہ یہ معائنہ کے ذریعہ ہوا، یعنی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے پردے ہٹادیے گئے اور صحیح حال آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر منکشف ہوگیا، پس آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کو دیکھ کر اپنی مسجد کا قبلہ رُخ متعین کیا۔“

اس سے دوباتیں معلوم ہوتی ہیں:

اوّل یہ کہ محراب کی ضرورت تعینِ قبلہ کے لیے ہے، تاکہ محراب کو دیکھ کر نمازی اپنا قبلہ رُخ متعین کرسکے۔

دوم یہ کہ جب سے مسجدِ نبوی کی تعمیر ہوئی، اسی وقت سے محراب کا نشان بھی لگادیا گیا، خواہ حضرت جبریل علیہ السلام نے اس کی نشان دہی کی ہو، یا آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بذریعہ کشفِ وحی خود ہی تجویز فرمائی ہو۔

البتہ یہ جوف دار (نصف گنبد یا گنبد نما) محراب جو آج کل مساجد میں ”قبلہ رُخ“ ہوا کرتی ہے، اس کی ابتدا خلیفہٴ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اس وقت کی تھی جب وہ ولید بن عبدالملک کے زمانے میں مدینہ طیبہ کے گورنر تھے، (وفاء الوفاء ص:۵۲۵ وما بعد) یہ صحابہ وتابعین کا دور تھا، اور اس وقت سے آج تک مسجد میں محراب بنانا مسلمانوں کا شعار رہا ہے۔

البحر الرائق میں ہے:

"وفي فتاوى قاضي خان: وجهة الكعبة تعرف بالدليل، والدليل في الأمصار والقرى المحاريب التي نصبها الصحابة والتابعون -رضي الله عنهم أجمعين- فعلينا اتباعهم في استقبال المحاريب المنصوبة". (1/ 300)
ترجمہ:…”اور قبلہ کا رُخ کسی علامت سے معلوم ہوسکتا ہے، اور شہروں اور آبادیوں میں قبلہ کی علامت وہ محرابیں ہیں جو صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم اجمعین نے بنائیں، پس بنی ہوئی محرابوں میں ہم پر ان کی پیروی لازم ہے۔“

یعنی یہ محرابیں، جو مسلمانوں کی مسجدوں میں صحابہ و تابعینؒ کے زمانے سے چلی آتی ہیں، دراصل قبلہ کا رُخ متعین کرنے کے لیے  ہیں، اور اُوپر گزر چکا ہے کہ استقبالِ قبلہ ملتِ اسلامیہ کا شعار ہے، اور محراب جہتِ قبلہ کی علامت کے طور پر مسجد کا شعار ہے، اور اس سے امام کا وسط میں کھڑا ہونے اور صفوں کا درمیان بھی معلوم ہوتا ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109200679

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں