نکاح نامہ میں مہرطے کرتے وقت یہ دو الفاظ عام طور استعمال ہوتے ہیں 1."عند الطلب" اور 2. "سکہ رائج الوقت"۔ عام طور پر 1. " عنداطلب" کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ جب طلب کیا جائے۔ اور 2. " سکہ رائج الوقت" کا مطلب جس وقت ادائیگی کی جارہی ہو اس وقت وہ کرنسی جو استعمال میں ہو۔ میرے پیر بھائی کا نکاح سن 1990 میں بعوض مہر، مبلغ پندرہ ہزار سکہ رائج الوقت، عندالطلب منعقد ہوا تھا ۔ زوجہ محترمہ کی طرف سے کبھی بھی مطالبہ نہیں ہوا اور نہ بچوں کی پڑھائی کی وجہ سے انہوں نے کبھی اس طرف توجہ دی ، کچھ سال پہلے، انہوں نے مبلغ پندرہ ہزار روپے زوجہ محترمہ کو "مہر" کی مد میں بتا کر ادا کر دئیے، جو کہ خوشی خوشی قبول کر لیے گئے ۔ اب ان کی چھوٹی سالی جو کہ خیر سے عالمہ بھی ہے، کی طرف سےان کی زوجہ محترمہ کو یہ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ " سکہ رائج الوقت" کا مطلب اس وقت کے سونے( gold ) کی قیمت کے برا بر " رقم" ہو تی ہے ، آپ وہ وصول کریں، اور کسی صورت معاف نہ کریں۔ آپ سے درخواست ہے کہ براہ مہر بانی ان دو الفاظ "عندالطلب" اور "سکہ رائج الوقت" کی تشریح فرما دیں تا کہ مجھ جیسے کئی لوگ حق مہر پورا پورا ادا کرنے والے ہو جائیں اور "مہر" مقرر کرتے وقت کسی بھی قسم کا وسوسہ نہ ہو۔ اور جب دنیا سے واپسی ہو توکسی کا کوئی حق ذمہ پر نا ہو۔
واضح رہے کہ ''مہر عند الطلب ''حقیقت میں مہر معجل (فوری ادائیگی والا مہر) ہے، تاہم اس کی ادائیگی فوری نہیں ہوتی، بلکہ بیوی کے مطالبہ پر واجب ہوتی ہے اور "سکہ رائج الوقت" سے مراد رائج الوقت کرنسی ہے، یعنی مہر رائج کرنسی میں ادا کیا جائے گا، پس 1990 میں چلنے والے نوٹ 2025 میں مہر دیتے وقت ادا نہیں کیے جائیں گے، بلکہ 2025 میں پاکستان میں رائج کرنسی نوٹوں سے مہر ادا کیا جائے گا، نوٹ کی مقدار کا اعتبار ہوگا، کرنسی کی ویلیو کا اعتبار نہیں ہوگا۔
پس صورت مسئولہ میں سائل کے پیر بھائی نے نکاح کے موقع پر مقرر مہر 15000 چونکہ ادا کردیئے ہیں، لہذا مہر کی ادائیگی ان کے ذمہ سے ساقط ہوچکی ہے، موصوف کی سالی کا سونے کی مالیت کے اعتبار سے مہر کی ادائیگی کا دعوی کرنا شرعا درست نہیں۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:
"النكاح الصحيح يجب بالعقد؛ لأنه إحداث الملك، والمهر يجب بمقابلة إحداث الملك؛ ولأنه عقد معاوضة وهو معاوضة البضع بالمهر فيقتضي وجوب العوض كالبيع، سواء كان المهر مفروضا في العقد أو لم يكن عندنا."
(کتاب النکاح ،فصل ما یجب بہ المہر ج نمبر ۲ ص نمبر ۲۸۷، دار الکتب العلمیۃ)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"(ثم الأصل) في التسمية أنها إن صحت وتقررت يجب المسمى ثم ينظر إن كان المسمى عشرة فصاعدا؛ فليس لها إلا ذلك."
(کتاب النکاح، باب المہر، ج :۱، ص:۳۰۳، دار الفکر)
کفایت المفتی میں ہے:
"مہر عند الطلب در حقیقت کوئی نئی قسم نہیں ہے بلکہ مہر معجل میں داخل ہے جس کے مطالبہ کو فورا عمل میں لانے سے ذرا ڈھیلا کر کے مطالبہ کرنےتک ملتوی کر دیا گیا ہے۔"
(کتاب النکاح ، باب المہر ج نمبر ۵ ص نمبر ۱۳۵، دار الاشاعت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610100066
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن