بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مہر فاطمی سے زیادہ مہر دینا


سوال

مہر فاطمی سے زیادہ کا کیا حکم ہے،  دے  سکتے  ہیں  یا نہیں؟

جواب

واضح  رہے  کہ مہر  کی زیادہ سے  زیادہ کوئی مقدار متعین نہیں ہے، البتہ کم از کم مقدار  دس درہم ہے،  جو آج کل کے رائج حساب سے دو تولہ ساڑھے  سات ماشہ چاندی کے برابر ہے۔ اور موجودہ وزن کے مطابق  اس  کی مقدار ۳۰  گرام ۶۱۸  ملی گرام ہوتی ہے۔  (اس کی قیمت بازار سے دریافت کی جاسکتی ہے)

 مہرِ مثل عورت کا حق ہے، یعنی اس لڑکی کے باپ کے خاندان کی وہ لڑکیاں جو مال، جمال، دین، عمر، عقل، زمانہ، شہر، باکرہ یا ثیبہ وغیرہ  ہونے میں اس کے برابر ہوں، ان کا جتنا مہر  تھا اس کا بھی اتنا مہر  ہے، لیکن شریعت نے فریقین کو اختیار دیا ہے کہ باہمی رضامندی سے مہرِ مثل سے کم یا زیادہ مہر مقرر کرسکتے ہیں بشرط یہ کہ وہ دس درہم سے کم نہ ہو، اس کو  ”مہرِ مسمی“ کہتے ہیں اور نکاح کے وقت فریقین جو مہر باہمی رضامندی سے طے کریں اسی  کی ادائیگی شوہر پر لازم ہوگی۔ استطاعت سے بہت زیادہ یا دکھلاوے کے لیے بہت زیادہ مہر مقرر کرنا شرعاً ناپسندیدہ ہے۔

البتہ اگر شوہر کی استطاعت ہو تو مستحب یہ ہے کہ مہرِ فاطمی مقرر کرلے، لیکن یہ ضروری نہیں ہے۔  ’’مہرفاطمی‘‘ سے مراد مہر کی وہ مقدار ہے جو  رسول اللہ ﷺ نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اوردیگر صاحبزادیوں اور  اکثر ازواجِ مطہرات کے لیے مقرر فرمائی تھی، مہر فاطمی کی مقدار احادیث میں ساڑھے بارہ اوقیہ منقول ہے، اور ایک اوقیہ چالیس درھم کا ہوتا ہے، تو اس حساب سے مہر فاطمی کی مقدار پانچ سو درھم  چاندی بنتی ہے،  موجودہ دور کے حساب سے اس کی مقدار ایک سو اکتیس تولہ تین ماشہ چاندی ہے، اور گرام کے حساب سے 1.5309 کلو گرام چاندی ہے۔

نیز مہر فاطمی سے زیادہ  جس پر دونوں گھرانے راضی ہوجائیں وہ طےبھی  کرسکتے ہیں۔ تاہم مہر میں بہت زیادہ مبالغہ  (جو حیثیت سے بڑھ کر ہو) یا دکھلاوا شرعاً پسندیدہ نہیں ہے۔  

لما فی الصحیح لمسلم:

"عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ کَمْ کَانَ صَدَاقُ رَسُولِ اﷲِ؟ قَالَتْ کَانَ صَدَاقُهُ لِأَزْوَاجِهِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَةً وَنَشًّا قَالَتْ أَتَدْرِي مَا النَّشُّ؟ قَالَ قُلْتُ لَا قَالَتْ نِصْفُ أُوقِيَةٍ فَتِلْکَ خَمْسُ مِائَةِ دِرْهَمٍ فَهَذَا صَدَاقُ رَسُولِ اﷲِ لِأَزْوَاجِهِ."

(باب الصداق وجواز کونہ تعلیم قران الخ، ج2، ص 1042، رقم: 1426، دار احياء التراث العربي بيروت)

وکذا في المصنف لابن أبي شیبة:

"عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِبْرَاهِيْمَ قَالَ صَدَاقُ بَنَاتٍ النَّبِيِّ وَصَدَاقُ نِسَائِهِ خَمْسُ مِائَةِ دِرْهَمٍ."

(ج3، ص 493، رقم: 16373، مکتبة الرشد الرياض)

وفي الدر المختار وحاشية ابن عابدين:

 

(أقله عشرة دراهم) لحديث البيهقي وغيره «لا مهر أقل من عشرة دراهم» ورواية الأقل تحمل على المعجل (فضة وزن سبعة) مثاقيل كما في الزكاة (مضروبة كانت أو لا)ولو دينا أو عرضا قيمته عشرة وقت العقد، أما في ضمانها بطلاق قبل الوطء فيوم القبض (وتجب) العشرة (إن سماها أو دونها و) يجب (الأكثر منها إن سمى) الأكثر . (رد المحتار) (3/ 101)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144209202177

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں