بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 رجب 1446ھ 15 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

مہنگا جانور خریدنے کے بجائے مناسب قیمت کا جانور خرید کر باقی رقم فلاحی کاموں میں خرچ کرنا


سوال

عید قریب آرہی ہے، بعض حضرات قربانی کے لیے بہت مہنگے جانور خریدتے ہیں،  جیسے دس ، پندرہ، بیس ، تیس  لاکھ بلکہ  اس سے بھی مہنگا خریدتے ہیں، حالاں کہ ایک اچھا فربہ جانور بھی   3 سے پانچ لاکھ تک مل جاتا ہے، سوال یہ ہے کہ اتنی مہنگی قربانی کرنے کا کیا حکم ہے، اگر اتنی مہنگی قربانی کرنے کے بجائے اگر مناسب فربہ جانور کی قربانی کرکے بقیہ پیسے  دیگر فلاحی  کاموں میں خرچ کرلیں تو یا  غرباء کی مدد کریں تو  کیا یہ بہتر ہوگا؟

جواب

قربانی  کا بنیادی  مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا اور تقویٰ کا حصول ہے، اور اس کے لیے شرط اخلاص اور للٰہیت ہے،   جب کہ ریاکاری ، دکھلاوااور   نام ونمود    اس کی ضد ہے اور یہ  نیک عمل کے ثواب کو ختم کردیتی ہے بلکہ  گناہ اور وبال کا ذریعہ بن جاتی ہے، اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہی عمل مقبول ہے جو خالص اللہ کی رضا وخوشنودی کے لیے کیا جائے، ریا کاری ودکھلاوے کا جانور کتنا ہی قیمتی ہو اللہ کی نظر میں اُس کی کوئی قیمت نہیں۔

لہذا اگر کوئی شخص ریا اور نام نمود سے بچتے ہوئے  محض اللہ کی رضا کے لیے   مہنگا ، خوبصورت اور عمدہ جانور خریدتا ہے ، اور اس کی  باقاعدہ نمائش وغیرہ نہیں کرتا اور اس کو اللہ کی رضا کے لیے قربان کرتا ہے تو یہ جائز ہے، اس کا اجر وثواب اس کو ملے گا ، وگرنہ ثواب سے محرومی ہوگی۔

  اگر    دکھلاوے کے طور پر  یا فیشن کی پیروی میں مہنگا ترین جانور خرید کر     اس  کی باقاعدہ نمائش کی جائے،  اور   اس نمائش میں مرد وزن  کا اختلاط   یا دیگر طرح  طرح کے مفاسد  بھی ہوں تو   یہ قربانی کے مقصد اور اخلاص کی روح کے منافی ہے، اس لیے اس سے اجتناب ضروری ہے۔

باقی قربانی کے دنوں میں اللہ کے نزدیک سب سے محبوب عبادت قربانی کے جانوروں کا خون بہانا ہے؛ جتنے زیادہ جانوروں کی قربانی ہوگی، اتنا اللہ کا قرب نصیب ہوگا ، لہذا اگر اللہ تعالیٰ نے کسی کو استطاعت دی ہو اور وہ قربانی کی عبادت پر زیادہ  رقم خرچ کرنا چاہتا ہو   تو  اگر  ایک بہت زیادہ مہنگے جانور کی قیمت  میں اس کو  چند   عمدہ اور فربہ  مناسب جانور    مل جائیں  تو  اس کے لیے بہتر یہی ہے کہ   وہ  ایک جانور کے بجائے  زیادہ جانور قربان کرے، اس  میں زیادہ سے زیادہ جانور کی قربانی ہوگی  اور عید الاضحی ٰ میں اس سے زیادہ پسندیدہ عمل کوئی نہیں، اور   ان جانوروں کے گوشت اور کھال سے زیادہ سے زیادہ   مخلوق کا فائدہ ہوگا، اور اس سب کا ثواب   قربانی کرنے والے کو ملے گا،  نیز ہر جانور کے بالوں کے برابر نیکیاں ملیں گی، بالخصوص اگر کسی علاقے میں فقراء اور غرباء زیادہ ہوں تو وہاں زیادہ جانور ذبح کرنا افضل ہوگا۔

باقی اگر کوئی شخص  مثلاً اللہ کی رضا کے لیے بیس لاکھ روپے کی قربانی کرنا چاہ رہا ہے تو اس کے لیے یہ تو بہتر ہے کہ وہ اس رقم میں زیادہ جانور ذبح کرلے لیکن ایک جانور ذبح کرکے باقی رقم فلاحی کاموں میں خرچ کرنے کا مشورہ دینا مناسب نہیں ہے ؛ اس لیے عیدالاضحیٰ جانور کی قربانی  ہی  سب سے زیادہ افضل  عبادت ہے ،جانور ذبح کرنے میں  اللہ کی رضا کی خاطر اپنا پیسہ خرچ کرنے کے  ساتھ  ساتھ  ’’إراقة الدم‘‘(جانور کے خون بہانے) کا اجر بھی شامل ہوتا ہے، جب کہ نفلی صدقہ  کرنے میں رقم خرچ کرنے کا ثواب تو ملتا ہے لیکن ’’إراقة الدم‘‘   کا ثواب حاصل نہیں ہوتا،  خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں  سو اونٹ نحر کیے تھے جن میں سے 63 اپنے دست ِ مبارک سے نحر کیے تھے اور باقی حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے آپ کے حکم سے کیے تھے، اور واجب قربانی کے علاوہ  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کا زائد قربانی کرنا بھی  قربانی کے  افضل ہونے کی دلیل ہے۔

سنن الترمذی  میں ہے:

"عن عائشة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «ما عمل آدمي من عمل يوم النحر أحب إلى الله من إهراق الدم، إنه ليأتي يوم القيامة بقرونها وأشعارها وأظلافها، وأن الدم ليقع من الله بمكان قبل أن يقع من الأرض، فطيبوا بها نفسا» ... ويروى عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: «في الأضحية لصاحبها بكل شعرة حسنة ويروى بقرونها»."

( أبواب الأضاحي، باب ما جاء في فضل الأضحية، 4/ 83،  رقم الحدیث : 1493،  ط: مصطفى البابي الحلبي - مصر)

ترجمہ:

"ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے  مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " قربانی کے دن اللہ کے نزدیک آدمی کا سب سے محبوب عمل خون بہانا ہے، قیامت کے دن قربانی کے جانور اپنی سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئیں گے،  قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے قبولیت کا درجہ حاصل کر لیتا ہے، اس لیے خوش دلی کے ساتھ قربانی کرو۔... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ: قربانی کرنے والے کو قربانی کے جانور کے ہر بال کے بدلے نیکی ملے گی اور یہ بھی مروی ہے کہ: جانور کی سینگ کے عوض نیکی ملے گی۔"

سنن ابن ماجہ میں ہے :

"عن زيد بن أرقم، قال: قال أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا رسول الله، ما هذه الأضاحي؟ قال: "سنة أبيكم إبراهيم" قالوا: فما لنا فيها يا رسول الله؟ قال: "بكل ‌شعرة ‌حسنة" قالوا: فالصوف يا رسول الله؟ قال: "بكل شعرة من الصوف حسنة."

( أبواب الأضاحي، باب ثواب الأضحية، 305/4، رقم الحدیث :  3127، ط :  ط: دار الرسالة )

ترجمہ:

” حضرت زید بن ارقم  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام نے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے) پوچھا کہ: اے اللہ کے رسول،  ان قربانیوں کی کیا حقیقت  ہے؟ فرمایا کہ:  تمہارے باپ ابراہیم ( علیہ السلام )  کی سنت ہے،ہم(صحابہ) نےعرض کیا:ہمیں اس میں کیا ملے گا؟ فرمایا کہ ہر بال کے بدلے نیکی۔ ہم نے کہا: اور (کیا) اون میں بھی(یہ اجر ہے) اے اللہ کے رسول؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اون کے ہر بال کے بدلے بھی  نیکی ہے۔“

البداية والنهاية لابن كثير"میں ہے:

" قال جابر: «ثم انصرف إلى المنحر، فنحر ثلاثا وستين بيده، ثم أعطى عليا فنحر ما غبر وأشركه في هديه، ثم أمر من كل بدنة ببضعة، فجعلت في قدر، فطبخت فأكلا من لحمها، وشربا من مرقها»."

( حجة الوداع في سنة عشر، فصل: انصراف النبي إلى المنحر ونحره ثلاثا وستين بيده، 7/ 612،  ط: دار عالم الكتب - الرياض)

شرح النووی علی مسلم میں ہے:

"(ثم انصرف إلى النحر فنحر ثلاثا وستين بيده ثم أعطى عليا فنحر ما غبر وأشركه في هديه) هكذا هو في النسخ ثلاثا وستين بيده وكذا نقله القاضي عن جميع الرواة سوى بن ماهان فإنه رواه بدنة قال وكلامه صواب والأول أصوب قلت وكلاهما حري فنحر ثلاثا وستين بدنة بيده قال القاضي فيه دليل على أن المنحر موضع معين من منى وحيث ذبح منها أو من الحرم أجزأه وفيه استحباب تكثير الهدي وكان هدي النبي صلى الله عليه وسلم في تلك السنة مائة بدنة وفيه استحباب ذبح المهدي هديه بنفسه وجواز الاستنابة فيه وذلك جائز بالإجماع إذا كان النائب مسلما ويجوز عندنا أن يكون النائب كافرا كتابيا بشرط أن ينوي صاحب الهدي عند دفعه إليه أو عند ذبحه وقوله ما غبر أي ما بقي وفيه استحباب تعجيل ذبح الهدايا وإن كانت كثيرة في يوم النحر ولا يؤخر بعضها إلى أيام التشريق وأما قوله وأشركه في هديه فظاهره أنه شاركه في نفس الهدي قال القاضي عياض وعندي أنه لم يكن تشريكا حقيقة بل أعطاه قدرا يذبحه والظاهر أن النبي صلى الله عليه وسلم نحر البدن التي جاءت معه من المدينة وكانت ثلاثا وستين كما جاء في رواية الترمذي وأعطى عليا البدن التي جاءت معه من اليمين وهي تمام المائة والله أعلم."

(كتاب الحج، باب حجة النبي صلى الله عليه وسلم، 8/ 192، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

حاشية الشرنبلالي" میں ہے:

"(قوله: والتضحية فيها أفضل من التصدق بثمن الأضحية. . . إلخ) كذا في الهداية،وقال في العناية هذا الدليل يشمل الغني والفقير اهـ.

(قلت) فيه إيهام جواز التصدق بالقيمة عن واجب الأضحية للغني في أيام النحر ولا يجزيه التصدق في أيام النحر بالقيمة لما قال في المبسوط إنه لا إشكال أن الموسر لا يجزيه التصدق بالقيمة في أيام النحر؛ لأنه لا قيمة لإراقة الدم وإقامة المتقوم مقام ما ليس بمتقوم لا يجوز وإراقة الدم خالص حق الله تعالى، وأما في حق الفقير التضحية أفضل لما فيه من الجمع بين التقرب بإراقة الدم والتصدق اهـ بمعناه (قوله: والتصدق) أي بثمنها تطوع محض فكانت هي أفضل كما في التبيين."

(كتاب الأضحية، 1/ 268، ط: دارالكتب العلمية - بيروت)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"والشاة أفضل من سبع البقرة إذا استويا في القيمة واللحم؛ لأن لحم الشاة أطيب، وإن كان سبع البقرة أكثر لحما فسبع البقرة أفضل، والحاصل في هذا أنهما إذا استويا في اللحم والقيمة فأطيبهما لحما أفضل، وإذا اختلفا في اللحم والقيمة فالفاضل أولى، فالفحل الذي يساوي عشرين أفضل من خصي بخمسة عشر، وإن استويا في القيمة."

(كتاب الأضحية، الباب السادس، 5/ 299،  ط: رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511101614

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں