بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

محفلِ قراءت كا حكم ، قاری کو سفر کے اخراجات اور رہائش وغیرہ کےلیے پیسے دینا


سوال

1۔محفلِ قراءت کا اہتمام کرنا کیسا ہے۔

اگر قاری سفر کر کےآئے  تو اسے سفر کے اخراجات اور رہائش کے لیے پیسے دینا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ محفلِ قراءت  کا اہتمام ا س نیت سے کرنا  کہ لوگوں میں قراءت کا شوق پیدا ہواور لوگ دین کی طرف راغب ہوں، فی نفسہ  جائز  بلکہ باعث ِ اجروثواب ہے، بشرطیکہ   وہ محفل مندرجہ ذیل  خرابیوں اور مفاسد پر مشتمل نہ ہو،مثلا :

الف۔رات دیر تک بڑے بڑے اسپیکر لگا کر محفل  کا اہتمام نہ  کیاجائے، جس سے دیگر  لوگوں کے آرام میں خلل واقع ہواور  بیماروں، معذوروں کو تکلیف ہو،یہ شرعا نا جائز   اور ایذا ءِ  مسلم میں داخل ہے ،جس پر احادیث میں  سخت وعیدات وارد ہوئی ہیں  ۔

ب۔ ایسی محفلوں میں تصویر کشی   اور ویڈیوز وغیرہ نہ ہوں جوکہ  شرعا حرام  اور گناہ ِ کبیرہ ہے اور تصویرکے متعلق  احادیث میں بہت سخت وعیدیں   وارد ہوئی ہیں ۔

ج۔ان محفلوں میں ضرورت سےزیادہ روشنی اورچراغاں کا اہتمام نہ کیا جائے ، محفل  کی سجاوٹ میں حد سے زیادہ تکلف  نہ کیا جائے اور غیر ضروری آسائش پر اخراجات نہ کیے جائیں،بلاشبہ یہ تمام چیزیں اسراف میں داخل ہونے کی وجہ سے حرام  اور اللہ کے ہاں  بہت ہی ناپسندیدہ ہے۔

د۔محفلوں  کا انعقاد  رات گئے    برقرار رکھنے کی وجہ سے شب بیداری کرکےصبح فرض نماز کو چھوڑا یا قضا نہ کیا جائے، عموما ایسی محفلوں میں مذکورہ گنا ہ کا ارتکاب ہوتاہے، جس سے اجتناب لازمی ہے۔

اگر محفلِ قراءت  میں مذکورہ  بالا مفاسد میں سے کوئی  نہ ہواور شرعی حدود اور آداب کا پورا پورا لحاظ رکھا جائے ، محض اللہ  کی رضا    اور قراءت کی ترویج  کی خاطر محفل منعقد کرلی  جائے تو باعثِ ثواب  ہے ۔

2۔قراء  حضرات کو اگر سفر  اوررہائش کےلیے پیسے دیے جائیں  تو یہ جائز ہے،البتہ قراءت چونکہ   ثواب  اور عبادت کی نیت سے ہو تی ہے، اس کے  پیسے وصول کرنا شرعا ًجائز نہیں ۔

مشکات شریف میں حدیث ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : وما اجتمع قوم في بيت من بيوت الله يتلون كتاب الله ويتدارسونه بينهم إلا نزلت عليهم السكينة وغشيتهم الرحمة وحفتهم الملائكة وذكرهم الله فيمن عنده ".

(كتاب العلم ، الفصل الأول:1/ 44،ط:المكتب الإسلامي)

بخاری شریف میں حدیث ہے:

''[عن] عبد اللّٰه قال : سمعت النبي ﷺ یقول : ’’ إن أشد الناس عذاباً عند اللّٰه المصورون."

(کتاب اللباس،باب عذاب المصورین یوم القیامة ،2/880)

صحیح مسلم  میں ہے:

"عن ابن جريج، أنه سمع أبا الزبير، يقول: سمعت جابرا، يقول: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده."

(کتاب الإیمان ، باب بیان تفاضل الإسلام:1 / 65  الناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

سنن ترمذی میں حدیث  ہے:

"عن عبد الله بن شقيق العقيلي : قال كان أصحاب محمد صلى الله عليه و سلم لا يرون شيئا من الأعمال تركه كفر غير الصلاة."

(ج:5، ص:14، ط: دار إحياء التراث العربي)

علامہ ابن قیم الجوزیہ کی "الصلاة وأحكام تاركها"میں ہے:

"لا يختلف المسلمون أن ترك الصلاة المفروضة عمدا من اعظم الذنوب وأكبر الكبائر وأن اثمه ثم الله أعظم من إثم قتل النفس وأخذ الأموال ومن إثم الزنا والسرقة وشرب الخمر وأنه متعرض لعقوبة الله وسخطه وخزيه في الدنيا والآخرة."

 (ص:31، ط: مكتبة الثقافة بالمدينة المنورة)

ملا علی قاری  کی "مرقاۃ المفاتیح  "میں ہے:

"ثم الحصر يفيد أن ترك الصلاة عندهم كان من أعظم الوزر وأقرب إلى الكفر."

(ج:2، ص:55، ط:دارالفکر)

فتح الباری  لابن حجر میں ہے:

"والأقوى أنه ما أنفق في غير وجهه المأذون فيه شرعًا سواء كانت دينيةً أو دنيويةً فمنع منه؛ لأنّ الله تعالى جعل المال قيامًا لمصالح العباد وفي تبذيرها تفويت تلك المصالح، إما في حق مضيعها وإما في حق غيره ويستثنى من ذلك كثرة إنفاقه في وجوه البر لتحصيل ثواب الآخرة ما لم يفوت حقًّا أخرويًّا أهم منه."

فتح الباري لابن حجر (كتاب الأدب:10/ 408،ط: دار المعرفة - بيروت)

فتاوی  شامی میں ہے:

"قوله (ولا لأجل الطاعات) الأصل أن كل طاعة يختص بها المسلم لا يجوز الاستئجار عليها عندنا لقوله عليه الصلاة والسلام اقرءوا القرآن ولا تأكلوا به."

(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة :6/55 ط:سعيد)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144307101549

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں