بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

محفل میں شریک ہوتے وقت ہر شخص سے ہاتھ ملانا ضروری ہے؟


سوال

کیا محفل میں شریک ہونے کے وقت ہر  فرد یا شخص کے ساتھ ہاتھ ملانا ضروری یا جائز ہے؟

جواب

سلام کرتے وقت مصافحہ (یعنی ہاتھ ملانا) کرنا سنت ہے اور حدیث شریف میں مصافحہ کو سلام کی تکمیل قرار دیا گیا ہے،  حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جب دو مسلمان آپس میں ملتے ہیں اور ایک دوسرے سے مصافحہ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ پر یہ حق ہو جاتا ہے کہ ان کی دعاؤں کو سنے اور دونوں ہاتھوں کے الگ ہونے سے پہلے ان کی مغفرت فرما دے، البتہ اگر مجلس میں مصافحہ کرنے سے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہو تو مصافحہ نہیں کرنا چاہیے ،لہذا اگر محفل میں شریک ہوتے وقت لوگ ہاتھ ملانے سے   تنگ ہوتے ہوں تو ہاتھ نہیں ملانا چاہیے، سلام کرناکافی ہے۔

مجمع الزاوائد میں ہے:

"وعن أنس أن نبي الله صلى الله عليه وسلم - قال:«ما من مسلمين التقيا، فأخذ أحدهما بيد صاحبه، إلا كان حقا على الله عز وجل أن يحضر دعاءهما، ولا يفرق بين أيديهما حتى يغفر لهما»"

(کتاب الأدب ، باب المصافحة و السلام و نحو ذلک،8 /36، ط : مكتبة القدسي ، القاهرة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(كالمصافحة) أي كما تجوز المصافحة لأنها سنة قديمة متواترة لقوله - عليه الصلاة والسلام - «من صافح أخاه المسلم وحرك يده تناثرت ذنوبه» وإطلاق المصنف تبعا للدرر والكنز والوقاية والنقاية والمجمع والملتقى وغيره يفيد جوازها مطلقا ولو بعد العصر وقولهم إنه بدعة أي مباحة حسنة كما أفاده النووي في أذكاره وغيره في غيره وعليه يحمل ما نقله عنه شارح المجمع من أنها بعد الفجر والعصر ليس بشيء توفيقا فتأمله. وفي القنية: السنة في المصافحة بكلتا يديه وتمامه فيما علقته على الملتقى (قوله لقوله - عليه الصلاة والسلام - إلخ) كذا في الهداية وفي شرحها للعيني قال النبي صلى الله عليه وسلم - «إن المؤمن إذا لقي المؤمن فسلم عليه وأخذ بيده فصافحه تناثرت خطاياهما كما يتناثر ورق الشجر» رواه الطبراني والبيهقي.

(قوله: كما أفاده النووي في أذكاره) حيث قال اعلم أن المصافحة مستحبة عند كل لقاء، وأما ما اعتاده الناس من المصافحة بعد صلاة الصبح والعصر، فلا أصل له في الشرع على هذا الوجه ولكن لا بأس به فإن أصل المصافحة سنة وكونهم حافظوا عليها في بعض الأحوال، وفرطوا في كثير من الأحوال أو أكثرها لا يخرج ذلك البعض عن كونه من المصافحة التي ورد الشرع بأصلها اهـ قال الشيخ أبو الحسن البكري: وتقييده بما بعد الصبح والعصر على عادة كانت في زمنه، وإلا فعقب الصلوات كلها كذلك كذا في رسالة الشرنبلالي في المصافحة ........(قوله وتمامه إلخ) ونصه: وهي إلصاق صفحة الكف بالكف وإقبال الوجه بالوجه فأخذ الأصابع ليس بمصافحة خلافا للروافض، والسنة أن تكون بكلتا يديه، وبغير حائل من ثوب أو غيره وعند اللقاء بعد السلام وأن يأخذ الإبهام، فإن فيه عرقا ينبت المحبة كذا جاء في الحديث ذكره القهستاني وغيره. "

(کتاب الحظر و الإباحة ، باب الاستبراء و غیرہ،6/ 381 ، 382، ط : دار الفکر)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144310101384

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں