اگر بیوی تین سے چار ایک سال یا دو سال کے وقفہ سے طلاق کا مطالبہ کرے،تو نکاح قائم رہتاہے؟
واضح رہے کہ ’’طلاق ‘‘ کے واقع ہونے کے لیے ضروری ہے کہ شوہر زبان سے یا تحریر سے طلاق کے صریح یا کنائی الفاظ ادا کرے، اگر بیوی طلاق کا مطالبہ کرے اور شوہر اس کے جواب میں کچھ نہ کہے تو محض بیوی کے طلاق کا مطالبہ کرنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی، نکاح برقرار ہے۔
وفی الدر المختار وحاشية ابن عابدين :
"قال في الفتح: ومنها أي من محاسنه جعله بيد الرجال دون النساء لاختصاصهن بنقصان العقل وغلبة الهوى ونقصان الدين."
(3/ 229 ط:سعید)
وفي حاشية ابن عابدين :
"(قوله: و ركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس والإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله: أنت طالق هكذا، كما سيأتي."
(رد المحتار3/ 230ط:سعيد)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144203201580
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن