بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مہر وصول کرنے کے لیے بیوی کا خود کو روکنے کا حکم


سوال

میری بیوی 5 ماہ سے ماں کے گھر خفا بیٹھی ہے،کافی جرگے گئے ہیں، لیکن ان کی شرط ہے کہ پہلے حق مہر ادا کرو، پھر میں واپس  جاؤں گی ،ملکی حالات کی وجہ سے آج کل میری کاروباری حالت کافی خراب ہے ،جس کی وجہ سے میں فی الحال حق مہر ادا نہیں کر سکتا ،تو اب مجھے کیا کرنا چاہیے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سائل اپنی بیوی کے ساتھ ازدواجی تعلق قائم کرچکا ہے یا تنہائی میں مل چکا ہے تو اس صورت میں اب بیوی کے لیے شوہر سےخود کو  مہر وصول ہونے تک  روکے رکھنے کا اختیار نہیں ہے،اس پر لازم ہے کہ وہ شوہر کے پا س واپس آجائے ،البتہ    سائل کو چاہیے کہ کچھ مہربیوی کو  نقد ادا کرکے  باقی مہر  جلد از جلد ادا کرنے کا وعدہ کرکے معاملہ کو حل کرنے کی کوشش کرےاور بیوی کو بھی چاہیے کہ شوہر کے مالی حالات خراب ہونے کی صورت میں اس قسم کی ضد نہ کرے اور دونوں ایک دوسرے کا لحاظ رکھیں تاکہ دونوں کے لیے اس رشتہ کو برقرار رکھنے میں آسانی ہو۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"في كل موضع دخل بها أو صحت الخلوة وتأكد كل المهر لو أرادت أن تمنع نفسها لاستيفاء المعجل لها ذلك عنده خلافا لهما وكذا لا يمنع من الخروج والسفر والحج التطوع عنده إلا إذا خرجت خروجا فاحشا وقبل تسليم النفس لها ذلك بالإجماع وكذا إذا دخل بها وهي صغيرة أو مكرهة أو مجنونة فللأب حبسها حتى يوفي لها المعجل، كذا في العتابية. ولو دخل الزوج بها أو خلا بها برضاها فلها أن تمنع نفسها عن السفر بها حتى تستوفي جميع المهر على جواب الكتاب والمعجل في عرف ديارنا عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وقالا: ليس له ذلك وكان الشيخ الإمام الفقيه الزاهد أبو القاسم الصفار - رحمه الله تعالى - يفتي في السفر بقول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وفي منع النفس بقولهما واستحسن بعض مشايخنا رحمهم الله تعالى اختياره، كذا في المحيط."

(كتاب النكاح،الباب السابع في المهر،الفصل الحادي عشر ،317/1،ط:رشيدية)

وفيه أيضا:

"وإذا كان المهر مؤجلا أجلا معلوما فحل الأجل ليس لها أن تمنع نفسها لتستوفي المهر على أصل أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى -، كذا في البدائع."

(كتاب النكاح،الباب السابع في المهر،الفصل الحادي عشر، 318/1،ط:رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144406100871

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں