بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مہر میں دی گئی سودی رقم کا حکم


سوال

اگر خاوند بیوی کو مہر میں سود  (حرام کمائی )  کی  رقم  دے تو کیابیوی کے لیے بھی  وہ  حرام  ہوگی  یا حلال؟

جواب

واضح رہے سود کی رقم  اولًا تو اصل مالک یا اس کے ورثاء کو لوٹانا ضروری ہے، یہ ممکن نہ ہو تو اس کا مصرف ثواب کی نیت کے بغیر   مستحقینِ زکوۃ  کو دینا ہے،اس کے علاوہ سود کی رقم نہ لینے والے کے  لیے حلال ہے، اورنہ ہی دینے والے کے  لیے۔

بصورتِ مسئولہ اگر  مہر میں سود کی رقم کو ہی کو متعین کیا گیا تھا اور ادائیگی بھی سودی رقم سے ہوئی ہو تو  بیوی کے لیے بطورِ مہر سودی رقم لینا حلال نہیں ہے، تاہم اگر مہر میں سودی رقم متعین نہیں تھی  (یعنی مہر مطلقًا مقرر ہوا) اور ادائیگی سودی  رقم سے ہوئی ہے، تو بیوی کے  لیے سودی رقم بطورِ مہر لینے  کی گنجائش  ہے۔

معارف السنن میں ہے:

"قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقهائنا کالهدایة وغیرها: أن من ملك بملك خبیث، ولم یمكنه الرد إلى المالك، فسبیله التصدقُ علی الفقراء ... قال: و الظاهر أن المتصدق بمثله ینبغي أن ینوي به فراغ ذمته، ولایرجو به المثوبة."

(أبواب الطهارة، باب ما جاء: لاتقبل صلاة بغیر طهور، ج:1، ص:34، ط: المکتبة الأشرفیة)

فتاوی عالمگیری (الفتاوى الهندية )  میں ہے:

"إذا تصرف في المغصوب وربح فهو على وجوه إما أن يكون يتعين بالتعيين كالعروض أو لا يتعين كالنقدين فإن كان مما يتعين لا يحل له التناول منه قبل ضمان القيمة وبعده يحل إلا فيما زاد على قدر القيمة وهو الربح فإنه لا يطيب له ولا يتصدق به وإن كان مما لا يتعين فقد قال الكرخي: إنه على أربعة أوجه إما إن أشار إليه ونقد منه أو أشار إليه ونقد من غيره أو أطلق إطلاقا ونقد منه أو أشار إلى غيره ونقد منه وفي كل ذلك يطيب له إلا في الوجه الأول وهو ما أشار إليه ونقد منه قال مشايخنا لا يطيب له بكل حال أن يتناول منه قبل أن يضمنه وبعد الضمان لا يطيب الربح بكل حال وهو المختار والجواب في الجامعين والمضاربة يدل على ذلك واختار بعضهم الفتوى على قول الكرخي في زماننا لكثرة الحرام." 

(كتاب الغصب، الباب الثامن فى تملك الغاصب والانتفاع به، ج:5، ص:141، ط:مكتبه رشيديه) 

فقط والله  اعلم 


فتوی نمبر : 144209200707

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں