بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مہندی اور بارات کی رسم اور اُس میں شرکت کا حکم


سوال

مہندی اور بارات کی رسم کی دین میں کیا حیثیت ہے؟ ان کو منعقد کرنا یا کسی عزیز کے بلانے پر ان میں جانا کیسا ہے؟

جواب

1۔واضح رہے کہ لڑکی کو مہندی لگانے میں بذاتِ خود کوئی بُرائی نہیں، البتہ شادی کے موقع پر اس کے لیے خاص تقریب منعقد کرنا اور اس میں شرکت کرناجائز نہیں ہے، اور جب اس میں ناچ، گانا،تصویر کشی، ویڈیو سازی ہو یا اجنبی مردوعورتوں کا اختلاط ہوتو یہ گناہ مزید سنگین ہوجاتا ہے۔

2۔ رخصتی کے لیے باقاعدہ بارات کا لے جانا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں، مروجه بارات کی رسم میں بہت سارے مفاسد پائے جاتے ہیں، مثلاً:  لڑکی والوں سے بادلِ نخواستہ کھانے کا انتظام کروانا، موسیقی، تصویر کشی، ویڈیو سازی،مرد وزن کا اختلاط، اور ناچ وغیرہ؛ لہٰذا اس سے اجتناب کرنا لازم ہے۔

البتہ اگر خلافِ شرع امور سے بچتے  ہوئے لڑکے کے خاندان کے چند افراد اجتماعی صورت میں لڑکی  کی رخصتی کرواکر اُسے لے آئیں، یا لڑکی والے خود لڑکی کو لڑکے کے گھر لے آئیں تو اس کی گنجائش ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا  اِنَّ الْمُبَذِّرِيْنَ كَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّيٰطِيْنِ ۭ وَكَانَ الشَّيْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا" (الإسراء: 26،27)

ترجمہ:" اور قرابت دار کو اس کا حق (مالی و غیر مالی) دیتے رہنا اور محتاج اور مسافر کو بھی دیتے رہنا اور (مال کو) بےموقع مت اڑانا (کیوں کہ)  بیشک بےموقع اڑانے والے شیطانوں کے بھائی بند ہیں  اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ناشکر ہے۔"(بیان القرآن)

دوسری جگہ ارشاد ہے:

"وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۠وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ" (المائدۃ: 2)

ترجمہ: اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت مت کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرا کرو بلاشبہ اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والے ہیں۔(بیان القرآن)

مشکوٰۃ المصابیح میں ہے:

"وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ‌من ‌تشبه بقوم فهو منهم. رواه أحمد وأبو داود."

(كتاب اللباس، الفصل الثاني، 2/ 1246، ط: المكتب الإسلامي)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"(وعنه) : أي عن ابن عمر (قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - (‌من ‌تشبه بقوم) : أي من شبه نفسه بالكفار مثلا في اللباس وغيره، أو بالفساق أو الفجار أو بأهل التصوف والصلحاء الأبرار. (فهو منهم) : أي في الإثم والخير. قال الطيبي: هذا عام في الخلق والخلق والشعار، ولما كان الشعار أظهر في التشبه ذكر في هذا الباب. قلت: بل الشعار هو المراد بالتشبه لا غير، فإن الخلق الصوري لا يتصور فيه التشبه، والخلق المعنوي لا يقال فيه التشبه، بل هو التخلق."

(كتاب اللباس، الفصل الثاني، 7/ 2782، ط : دار الفکر)

وفيه أيضاً:

" الحناء سنة للنساء، ويكره لغيرهن من الرجال إلا أن يكون لعذر لأنه تشبه بهن اه."

(كتاب اللباس، باب الترجل، 7/ 2818، ط: دار الفكر)

حکیم الأمت حضرت مولانا اشرف علی تھا نوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"اصل میں یہ بارات وغیرہ ہندؤوں کی ایجاد ہے کہ پہلے زمانے میں امن نہ تھا، دلہن کی حفاظت کے لیے ایک جماعت کی ضرورت تھی اور اس وجہ سےفی گھر ایک آدمی لیا جاتا تھا کہ اگر اتفاق سے کوئی بات پیش آوے تو ایک گھر میں ایک ہی بیوہ ہو، اور اب تو امن کا زمانہ ہے، اب اس جماعت کی کیا ضرورت ہے، اور اگر خوف بھی ہو تو اس قدر پہنا کر کیوں لاؤ، اور اگر کہیے گا اس میں بھی مصلحت ہے تو اس کا کیا جواب دوگے کہ بارات والے جاتے تو ہیں جمع ہوکر اور لوٹتے ہیں متفرق ہوکر، اور اکثر دلہن اور دولہا اکیلے رہ جاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حفاظت وغیرہ کچھ مقصود نہیں، صرف رسم کو پورا کرنا اور نام آوری مدِ نظر ہوتی ہے ۔۔۔یہ خرابیاں ہیں بارات میں، جن کی وجہ سے بارات کو منع کیا جاتا ہے اور میں جو پہلے باراتوں میں جایا کرتا تھا، جب تک میری سمجھ میں خرابیاں نہ آئی تھیں، اب میں ان رسوم کو بالکل حرام سمجھتا ہوں۔۔۔الخ۔"

(اشرف الجواب، حصۂ دوم، 103۔105، ط: مکتبہ تھانوی )

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144307102442

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں