ایک بندے کی شادی 1975ء سے1980ء کے درمیان ہوئی ، اس وقت مہر تقریباً 500روپے تک تھا ،1985ء میں اس بندے نے دوسرے ضلع میں ایک پلاٹ خریدا تھا،اب اس بندے کا انتقال 2024 میں ہوا ہے،انتقال سے چھ مہینے پہلے اس کی بیوی نے اس پلاٹ کو اپنے نام کر لیا اور اب وہ کہتی ہے کہ یہ پلاٹ مجھے میرے شوہر نے مہرِ نکاح میں دیا ہے ۔سوال یہ ہے کہ ایک مرتبہ جب مہر مقرر کیا جائے تو دوبارہ اس میں رد و بدل ہو سکتا ہے یا نہیں؟
واضح رہے کہ مہر شرعابیوی کا حق ہوتا ہے۔جو بھی رقم یا چیز نکاح کے وقت مہر میں طے کی جاتی ہے،حسبِ معاہدہ شوہر کے ذمہ اس کی ادائیگی ہی لازم ہوتی ہے۔البتہ اگر شوہر بیوی کو مہر میں مقررہ کردہ چیز یا رقم کےبدلے کوئی اور چیز (پہلے سے طے شدہ چیز کے علاوہ)دے اور بیوی اسے مہر کے بدلےلینےپر راضی ہوجائے تو اس چیز کو بھی مہر شمار کرنا شرعاً درست ہوتا ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں 2024 میں انتقال کرنے والے شخص نے بیوی کا مہر 1980ء میں 500 روپے مقرر کیا تھا،تو اس کے ذمہ اتنی رقم کی ادائیگی ہی لازم تھی،اور اگر اس نے بیوی کو وہ مہر ادا نہ کیا تھا تو اس کے ترکہ سے اتنی رقم بیوہ کو مہر کی ادائیگی میں دینا لازم ہے،البتہ اگراب بیوہ یہ دعوی کرتی ہے کہ اس نے مجھے مہر کی رقم کے بدلہ مذکورہ پلاٹ دے دیا تھااور اس کے پاس اپنے اس دعوی پر شرعی گواہ بھی ہیں،تو پھر مذکورہ پلاٹ بیوی کی ملکیت شمار ہوگا۔
الفتاوی التاتارخانیۃ میں ہے:
"المهر لا يخلو إما أن يكون ديناً ، أو عينا، ونعني بالعين العروض، والحيوان، والعقار، والمكيل، والموزون إذا كانا بأعيانهما، ونعني بالدين الدراهم والدنانير ، أما إذا كان المهر عينا، فليس للزوج أن يدفع إليها غيره، وإن كان دينا كان للزوج أن يحبسه ويدفع غيره."
(کتاب النکاح، فصل: المہر، ج:4، ص:164، ط:مکتبہ زکریا)
بدائع الصنائع میں ہے:
"المرأة تملك المهر قبل القبض ملكا تاما إذ الملك نوعان: ملك رقبة، وملك يد، وهو ملك التصرف، ولا شك أن ملك الرقبة ثابت لها قبل القبض، وكذلك ملك التصرف؛ لأنها تملك التصرف في المهر قبل القبض من كل وجه."
(كتاب النكاح، فصل في جواز و افساد نكاح اهل الذمة، ج:2، ص:313، ط:دار الكتب العلمية)
فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:
”سوال :زید کی زوجہ ہندہ کے مہر پچاس روپیہ کے تھے زید جب مرنے کے قریب ہو گیا تو اس وقت مجھ کو بلایا اور قاضی کے رجسٹر میں قاضی سے یہ لکھوا دیا کہ بعوض مہر اپنی زوجہ ہندہ کو ایک مکان خام دیتا ہوں روبرو گواہان کے یہ کام کیا گیا اس صورت میں مہر ادا ہو گیا یا نہیں اور کوئی امر خلاف شریعت تو نہیں ہوا ؟
الجواب : اس صورت میں مہر ادا ہو گیا اور کچھ خلاف شریعت نہیں ہوا۔“
(کتاب النکاح ،ساتواں باب، ج:8، ص:179، ط:دار الاشاعت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144607100235
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن