بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مہر میں قیدیوں کو آزاد کروانے کو مقرر کرنا


سوال

ہمارے ملک میں کچھ لوگ حق مہر کی بجائے شرط لگاتے ہیں کہ قیدیوں کو آزاد کیا جائے یا ان کے مقدمات کی پیروی کی جائے ،کیاایسا کرنا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت نے مہر کے لیے مال ہونے  کی شرط لگائی ہے،کہ عورتوں سے نکاح کی صورت میں مہر "مال" کی شکل میں ادا کیا جائے،مال کے علاوہ کسی اور حق کو  بطور مہر مقرر کرنا درست نہیں ہے،اور اس صورت میں مہرِ مثل (جو عورت کے خاندان میں عمومی طور پر مقرر کیا جاتا ہو) ادا کرنا لازم ہوگا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں مہر کی مد میں قیدیوں کو آزاد کرنا یا ان کے مقدمات کی پیروی کرنے کو مہر بنانا درست نہیں ہے،اور اس طرح نکاح کرنے کی صورت میں شوہر کے ذمے مہر مثل بیوی کو ادا کرنا ضروری ہے، تاہم اگر مہر یوں طے کیا جائے کہ قیدیوں کو آزاد کرنے کے لیے دی جانے والی رقم یا ان کے مقدمات کی پیروی میں خرچ ہونے والی رقم  مہر  ہوگی، اور وہ رقم بیوی کے حوالے کردی جائے، اور عورت وہ رقم لے کر قیدیوں کو آزاد کردے یا ان کے مقدمات کی پیروی میں خرچ کردے  تو مہر ادا ہوجائے گا۔

صفوۃ التفاسیر میں ہے:

"{أَن تَبْتَغُواْ بِأَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ} أي إِرادة أن تطلبوا النساء بطريق شرعي فتدفعوا لهن المهور." (247/1)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و لو تزوج امرأة على طلاق امرأة له أخرى أو على دم عمد له عليها أو على أن يحج بها؛ كان لها مهر مثلها." (303/1)

فتاوی شامی میں ہے:

"قلت: و لا بد من كونها مما يستحق المال بمقابلتها ليخرج ما يأتي من عدم صحة التسمية في خدمة الزوج الحر لها وتعليم القرآن."(102/3)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201789

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں