بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مہر معاف کرنا/ شادی کے زیورات کا حکم


سوال

میری بہن کی شادی 4 فروری 2022ء کو ہوئی، اس کے دو مہینے بعد بہنوئی کا ایکسیڈنٹ ہوا، دو مہینہ ہسپتال میں رہ کر ان کا انتقال ہوگیا، میری بہن اب عدت گزار رہی ہے، اب شادی کے موقع پر  سسرال والوں کی طرف سے میری بہن کو کچھ سونے کے تحائف ملے تھے، اور کچھ کپڑے ہمارے گھر  کی طرف سے لڑکے کو ملے، ان سب کا کیا حکم ہے؟ یہ کس کی ملکیت شمار ہوگی؟ نیز 32000 روپے مہر طے ہوا تھا جو میری بہن  سے ان کے شوہر کے انتقال کے موقع پر معاف کرایا گیا، اور لڑکی کا بیان ہے کہ وہ اس پر  راضی ہے، تو کیا مہر معاف ہوا ہے یا نہیں؟

نیز میری بہن کو اس کے شوہر نے 16000 روپے دئیے تھے انتقال سے قبل یہ کہہ کر کہ یہ کسی کی امانت ہے،  یہ آکر لوں گا، مگر وہ واپس نہیں آیا، اور اب ہمیں معلوم نہیں کہ یہ کس کی رقم تھی، شوہر کی ذاتی تھی یا کسی اور کی، تو اس رقم کا کیا حکم ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ مہر عورت کا حق ہے، عورت اگر اپنی خوش دلی سے پورا  مہر یا مہر کا کچھ حصہ معاف کر دے تو معاف ہو جاتا ہے، صورتِ مسئولہ میں  سائل کی بہن سے اس کے  شوہر کے انتقال کے موقع پر مہر   معاف کرایا گیا تھا تو اس طرح معاف کر دینے  کا کوئی اعتبار نہیں تھا، شادی کی پہلی رات یا شوہر کے انتقال کے وقت بیوی سے مہر معاف کرانے کا رواج شرعا غیر شرعی ہے، تاہم اب  لڑکی اگر واقعۃ اس پر راضی ہے  تو اب یہ مہر معاف ہوگیا، اب  سائل کی بہن کو   اس رقم کے مطالبہ کا حق نہیں ہے، نیز نکاح کے موقع پر جو زیورات سائل کی بہن کو بطورِ تحفہ دئیے گئے تھے یا لڑکی کے گھر والوں کی طرف سے شوہر کو جو کپڑے دئیے گئے تھے تو وہ زیورات سائل کی بہن کی ملکیت  اور کپڑے شوہر کی ملکیت شمار ہوگے، شوہر کے انتقال  کے بعد ان چیزوں کی  واپسی کا مطالبہ کرنا جائز نہیں۔

نیز سائل کی بہن کو اگر اس کے شوہر نے واقعۃ  رقم یہ کہہ کر دی کہ" یہ کسی کی امانت ہےاور میں آکر لوں گا"، اور سائل کی والدہ کے بیان کے مطابق اس رقم کا مالک معلوم نہیں ہے جبکہ شوہر کا بھی انتقال ہوچکا ہے، تو یہ رقم امانت کے حکم میں ہے، امانت کاحکم یہ ہے کہ جس شخص کی امانت ہو،  اسے حتی الامکان تلاش کیاجائے اور اس کے بارے میں لوگوں سے معلومات حاصل کی جائیں،اگروہ شخص مل جاتاہے تو امانت اس کے حوالے کی جائے اور اگر کسی بھی طرح امانت کے اصل مالک کا یا اس کے ورثاء کا پتا نہ چلے تو   اس کی مالیت دس درہم سے کم ہونے کی صورت میں  اس امانت کا حکم "لقطہ " (گم شدہ چیز) کا ہوگا، یعنی اس صورت میں بھی حکم یہ ہوتا ہے کہ  امانت رکھنے والا شخص اس رقم یاشے کو محفوظ  رکھے، تاکہ مالک آجانے کی صورت میں مشکل پیش نہ آئے۔ اور  زیادہ ہونے کی صورت میں امانت رکھوانے والے شخص کی طرف سے مذکورہ رقم یا چیز فقیر کو صدقہ کردے بشرطیکہ کئی سالوں تک بطورِ امانت اس رقم کو محفوظ رکھا ہو، اور اگر امین (جس کے پاس امانت رکھوائی گئی ہو)  زکاۃ کا مستحق ہے تو خود بھی استعمال کرسکتاہے۔البتہ صدقہ کرنے یاخود استعمال کرنے کے بعد صاحبِ مال آجاتاہے تواسے اپنی امانت کے مطالبے کااختیارحاصل ہوگا۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں  فی الحال  سائل کی بہن مذکورہ رقم  کو محفوظ رکھے، اور اس امانت کے حقیقی مالک کی تحقیق کرے، اور اگر مکمل تفتیش کے بعد بھی اس بات کا علم نہ ہو اور وہ نہ مل سکے تواس صورت میں سائل کی بہن  ان کی طرف سے یہ رقم صدقہ کرسکتی ہے اور اگر مستحق ہو تو خود بھی استعمال کرسکتی ہے، البتہ  اگر رقم  کا مالک آجائے تواس کےمطالبے پر اس کو واپس کرنالازم ہوگا، نیز اگر یہ معلوم ہوجائے کہ یہ شوہر کی ذاتی رقم تھی تو پھر یہ اس کی میراث شمار ہوکر اس کے شرعی ورثاء کے درمیان تقسیم ہوگی۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"ومنها: هبة كل المهر قبل القبض عينا كان أو دينا وبعده إذا كان عينا."

(کتاب النکاح، فصل بيان ما يسقط به كل المهر، 2/ 295، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وصح حطها) لكله أو بعضه (عنه) قبل أو لا۔۔۔

(قوله وصح حطها) الحط: الإسقاط كما في المغرب، وقيد بحطها لأن حط أبيها غير صحيح لو صغيرة، ولو كبيرة توقف على إجازتها، ولا بد من رضاها. ففي هبة الخلاصة خوفها بضرب حتى وهبت مهرها لم يصح لو قادرا على الضرب."

(باب المهر، مطلب في حط المهر والإبراء منه، 3/ 113، ط: سعید)

و فیہ ایضا:

"قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر، ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضاً."

(کتاب النکاح، باب المهر، 3/ 153، ط: سعید)

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر میں ہے:

"(وللملتقط أن ينتفع باللقطة بعد التعريف لو) كان (فقيرا) لأن صرفه إلى فقير آخر كان للثواب وهو مثله."

(کتاب اللقطة، الانتفاع باللقطة، 1/ 708، ط: دار احیاء التراث العربي)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

‌"غريب ‌مات في بلدة وترك أموالا فقاضي البلدة يتربص مدة يقع في قلبه أنه لو كان له وارث لحضر في هذه المدة، فإذا تربص مثل هذه المدة ولم يحضر له وارث يضعها في بيت المال ويصرفها إلى القناطر ونفقة الأيتام وأشباه ذلك، وإذا حضر الوارث بعدما صرفها إلى هذه المصارف يقضي حقه من مال بيت المال."

(کتاب أدب القاضی، ‌‌الباب الخامس عشر في أقوال القاضي وما ينبغي للقاضي أن يفعل، 3/ 345، ط: دار الفکر بیروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الحاوي: ‌غريب ‌مات في بيت إنسان ولم يعرف وارثه فتركته كلقطة، ما لم يكن كثيرا فلبيت المال بعد الفحص عن ورثته سنين، فإن لم يجدهم فله لو مصرفا."

(کتاب اللقطة، مطلب فيمن مات في سفره فباع رفيقه متاعه، 4/ 284، ط: سعید)

امداد الاحکام میں ہے:

"سوال: ایک شخص کی امانت میرے پاس موجود ہے اور اس شخص کا کچھ پتہ نہیں، میں نے اپنی رائے میں اس امانت کی اہمیت کی نسبت سے کافی تحقیق اس شخص کی کی، مگر نہ تو اس کا اور نہ اس کے ورثاء کا کچھ پتا ملا، اب اس امانت کو کیا کروںِ اور اس بارے کس طرح سبکدوش ہوں، انتظار کی بھی حد گذر گئی،بظاہر کوئی صورت اس شخص کے پتہ ملنے کی نہین معلوم ہوتی ہے، امید ہے کہ خالصا للہ شرعی حکم سے مطلع کیا جاؤں گا۔

الجواب: اس صورت میں اگر وہ مال دس درہم کی مقدار سے کم ہے تو لقطہ کے حکم میں ہے اور اگر زیادہ کا ہے تو بیت المال کا حق ہےبشرطیکہ کئی برس تک اس امانت والے کی اور اس کے ورثاء کی کافی تحقیق ہوگئی ہو، اور پتہ نہ ملا ہو، اور آج  کل مدارسِ اسلامیہ کا حکم مثل بیت المال کے ہے، اور اگر سائل صدقہ کا مصرف ہو تو وہ خود بھی صرف کرسکتا ہے۔"

(کتاب الودیعہ، 3/ 624، ط: مکتبہ دارالعلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101393

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں