بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میزان مضاربہ اکاؤنٹ میں رکھی ہوئی رقم پر زکات کا حکم


سوال

میں ریٹائرڈ ہوں اور  میں نے گھر کے اخراجات کے لیے سرمایہ میزان بینک کے مضاربہ اکاؤنٹ( میزان کیش فنڈ منتھلی بیسس) میں رکھا ہوا ہے ۔اس انویسمنٹ کے اکاؤنٹ پر زکوۃ واجب ہے یا نہیں؟ میری نہ کوئی پینشن ہے اور نہ کوئی کمائی کا ذریعہ ہے۔راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے  میزان بینک اور دیگر  مروجہ اسلامی بینکوں کے معاملات (مروجہ مضاربت، شرکت،مرابحہ وغیرہ)  شرعی تقاصوں پورا نہ کرنے کی وجہ سے ناجائز  ہیں  اور ان معاملات سے حاصل ہونے والے منافع  حلال نہیں ہیں؛  لہذا  سائل صرف اپنے اصل سرمائے کے بقدر وصول کرنے کا شرعًا حق دار  ہے،  باقی بینک سے وصول ہی نہ کرے، اور اس عقد کو بھی ختم کردے، یا تو  اکاؤنٹ ختم کردے یا کرنٹ اکاؤنٹ میں تبدیل کردے۔

سائل کو چاہیے کہ وہ اپنے اصل سرمائے کی رقم کا ڈھائی فیصد زکوۃ  میں ادا کردے، باقی اس کے علاوہ جتنا نفع ہے وہ چوں کہ حلال نہیں ہے اور سائل اس کو وصول ہی نہیں کرے گا تو اس کی زکوۃ  سائل پر لازم نہیں ہے۔

الفتاوى الهندية  میں  ہے:

«تجب في كل مائتي درهم خمسة دراهم، وفي كل عشرين مثقال ذهب نصف مثقال مضروبا كان أو لم يكن مصوغا أو غير مصوغ حليا كان للرجال أو للنساء تبرا كان أو سبيكة كذا في الخلاصة.»

(کتاب الزکوۃ باب ثالث ج نمبر ۱ ص نمبر ۱۷۸،دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

«قوله: كما لو كان الكل خبيثا) في القنية لو كان الخبيث نصابا لا يلزمه الزكاة؛ لأن الكل واجب التصدق عليه فلا يفيد إيجاب التصدق ببعضه. اهـ.

ومثله في البزازية (قوله: كما في النهر) أي أول كتاب الزكاة عند قول الكنز وملك نصاب حولي، ومثله في الشرنبلالية، وذكره في شرح الوهبانية بحثا؛ وفي الفصل العاشر من التتارخانية عن فتاوى الحجة: من ملك أموالا غير طيبة أو غصب أموالا وخلطها ملكها بالخلط ويصير ضامنا، وإن لم يكن له سواها نصاب فلا زكاة عليه فيها وإن بلغت نصابا؛ لأنه مديون ومال المديون لا ينعقد سببا لوجوب الزكاة عندنا. اهـ.»

(کتاب الزکوۃ باب زکوۃ الغنم ج نمبر ۲ ص نمبر ۲۹۱،ایچ ایم سعید)

 فقط اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200987

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں