بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میزان میوچل فنڈ میں سرمایہ کاری کا شرعی حکم


سوال

 میں میزان بینک کے نفع نقصان والے میوچل فنڈ میں اکاونٹ کھولنا چاہتی ہوں،کیا اس اکاؤنٹ سے حاصل شدہ منافع شرعاً جائز ہو گا؟ 

جواب

واضح رہے کہ  مروجہ غیر سودی بینکوں  کا طریقہ کار شرعی اصولوں کی مکمل  پاسداری نہ ہونے کی وجہ سے درست نہیں،کیوں کہ  جن شرعی قواعد وضوابط کے تحت مذکورہ فنڈز  میں انویسٹمنٹ کرنا جائزہے،ہماری معلومات کے مطابق بینک کی جانب سےان قواعد وضوابط پر عملدر آمد  نہیں کیا جاتا ،نیز ان بینکوں کے مختلف فنڈز میں کی جانے والی سرمایہ کاری میں  میں ایسے طریقوں اور حیلوں کو استعمال کیا جاتا ہے جن کو اسلامی کہنا یا سود سے پاک کہنا درست نہیں ؛لہٰذا روایتی بینکوں کی طرح مذکورہ بینک  میں بھی رقم انویسٹ کرنا   (بشمول میوچل فنڈ کے)اور ان بینکوں میں کسی بھی بینک کے ساتھ کسی بھی قسم کا تمویلی معاملہ کرنا جائز نہیں، اوراس سےحاصل ہونے والا نفع  حلال نہیں ہوگا،اورانویسٹمنٹ کی صورت میں حاصل ہونے والی  رقم بینک کو واپس کرناضروری ہوگی۔

قرآن مجید میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

"وَتَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى ‌وَلا ‌تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقابِ."(المائدة:2)

ترجمہ:"اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہو اور گناہ و زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرا کرو ،بلاشبہ اللہ تعالی سخت سزا دینے والا ہے."(بیان القرآن )

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"وقوله تعالى وتعاونوا على البر والتقوى يقتضي ظاهره إيجاب التعاون على كل ما كان تعالى لأن البر هو طاعات الله وقوله تعالى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان نهي عن معاونة غيرنا على معاصي الله تعالى."

(المائدۃ : ج:3، ص:296، ط: داراحیاء التراث العربي)

المحیط البرھانی میں ہے:

"فكان الربح حاصلاً على ملك بعقد فاسد، والعقد الفاسد معصية، فكان فيه نوع خبث، والربح الحاصل من أصل الخبث ‌سبيله ‌التصدق."

(كتاب البيع، ‌‌الفصل الخامس والعشرون: في البياعات المكروهة والأرباح الفاسدة وما جاء فيها من الرخصة، ج:7، ص:142، ط: دارالكتب العلمية)

درر الحکام لعلی حیدر میں ہے:

"ما ‌حرم ‌أخذه حرم إعطاؤه.

يعني أن إعطاء الحرام وأخذه سواء في الحرمة، كما أن المكروه أخذه وإعطاؤه مكروه."

(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، المادة :34 ،ما ‌حرم ‌أخذه حرم إعطاؤه، ج:1، ص:43، دار الجيل)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144507102301

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں