بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میزان بینک سے گاڑی لینے کاحکم


سوال

میزان بینک سے گاڑی لینے کا کیا حکم ہے؟

جواب

"میزان بینک"گاہک کے ساتھ  گاڑی  کی خریداری   میں اجارہ  کے نام سے معاملہ کرتاہے،اور  یہ معاملہ درج ذیل شرعی خرابیوں کی وجہ سے ناجائز ہے۔

۱۔ابتداءً یہ معاملہ اجارہ (کرایہ داری ) کے نام سے کیا جاتاہے ،لیکن انتہاءً بیع(فروخت کرنے) کا معاملہ ہوتا ہے،یوں اس  عقد میں شرعی سقم ہے کہ ایک عقد کے ضمن میں دو الگ عقد  کیے جاتے ہیں  ۔

۲۔بینک خریدار کے ساتھ اجارہ کے نام سے معاملہ کرنے کے بعد ہر ماہ قسط وار وصولیاں کر تا ہے ، کسی بھی ماہ میں  وصولی نہ ہونے کی صورت میں گاہگ پر مالی جرمانہ  بھرنے کی شرط ہوتی ہے،جو کہ شرعاً ناجائزہے۔

۳۔اجارہ کے نام پر کیے جانے والے اس معاملے میں معقود علیہ(کرایہ پر دی گئی چیز)کی خرابی کی صورت میں ،اِس چیز  کی اصلاح   اور قابلِ منفعت  بنانےکے لیےکیے جانے  والے اخراجات  شرعاًموجِر (کرایہ پر دینے والے) کے ذمہ ہوتے ہیں،جب کہ میزان بینک کے کار اجارہ میں اِن اخراجات کا ذمہ کرایہ پر لینے والے کے ذمہ ہونے کی شرط ہوتی ہے،جو کہ  شرط ِفاسد ہے اور اس شرط سے معاملہ فاسد ہوجاتاہے۔

لہٰذا میزان بینک سے گاڑی خریدنا شرعا جائز نہیں ہے۔

"المحيط البرهاني" میں ہے:

"حانوت احترق، فاستأجره رجل كل شهر بخمسة دراهم، على أن يعمره على أن يحسب صفقة فعمره فهذه الإجارة فاسدة، وإنما فسدت هذه الإجارة؛ لأن هذا في معنى استئجار والمستأجر بالقيام على  العمارة فكان إدخال ‌صفقة ‌في ‌صفقة أخرى؛ ولأن شرط العمارة على المستأجر شرط يخالف  قضية الشرع؛ لأن إصلاح الملك على المالك فيوجب فساد العقد".

 (:كتاب الأجارات،الفصل الخامس: في الخيار في الإجارة والشرط فيها،ج:7،ص:418،ط:دار الكتب العلمية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(أو أرضا بشرط أن يثنيها) أي يحرثها (أو يكري أنهارها) العظام( أو يسرقنها) لبقاء أثر هذه الأفعال لرب الأرض، فلو لم تبق لم تفسد.

وفي الرد:(قوله بشرط أن يثنيها) في القاموس ثناه تثنية جعله اثنين اهـ وهو على حذف مضاف أي يثني حرثها. وفي ‌المنح إن كان المراد أن يردها مكروبة فلا شك في فساده، وإلا فإن كانت الأرض لا تخرج الريع إلا بالكراب مرتين لا يفسد وإن مما تخرج بدونه، فإن كان أثره يبقى بعد انتهاء العقد يفسد؛ لأن فيه منفعة لرب الأرض وإلا فلا".

(كتاب الإجارة،باب إجارة الفاسدة،ج:6،ص:59،ط:سعيد)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"والإجارة تفسدها الشروط التي لا يقتضيها العقد كما إذا شرط على الأجير الخاص ضمان ما تلف بفعله أو بغير فعله أو على الأجير المشترك ضمان ما تلف بغير فعله على قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أما إذا اشترط شرطا يقتضيه العقد كما إذا شرط على الأجير المشترك ضمان ما تلف بفعله لا يفسد العقد. كذا في الجوهرة ‌النيرة".

(كتاب الإجارة،الفصل الثاني فيما يفسد العقد فيه لمكان الشرط،ج:4،ص:442،ط:ماجدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101016

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں