بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میزان بینک میں پیسے رکھوانا اور اس پر نفع لینا


سوال

میرے پاس کچھ پیسے ہیں جن کو میں میزان اسلامک بینک میں رکھنا چاہتا ہوں تاکہ میرے پیسے بھی محفوظ رہیں اور کچھ نہ کچھ منافع بھی ملتا رہے کیا ایسا کرنا جائز ہے کہ نہیں، میں نے کافی تحقیق کی جس میں بہت سارے مفتی حضرات حتی کہ مکہ مکرمہ  سے بھی ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ آپ میزان بینک میں پیسے رکھوا سکتے ہیں ۔  آپ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں؟

جواب

میزان بینک یا  بینک اسلامی یا کسی بھی مروجہ غیر سودی بینکوں سے  تمویلی معاملات کرنا، سیونگ اکاؤنٹ  وغیرہ کھلوانا جائز نہیں،   مروجہ غیر سودی بینکوں  کا اگرچہ یہ دعویٰ ہے کہ وہ علماءِ کرام کی نگرانی میں  شرعی اصولوں کے مطابق کام کرتے ہیں (میزان بینک بھی ان ہی میں سے  ایک ہے)،  لیکن  ان  بینکوں کا طریقہ کار شرعی اصولوں کے مطابق نہیں ہے،  اور مروجہ غیر سودی بینک اور  روایتی بینک کے بہت سے  معاملات  تقریباً ایک جیسے ہیں، لہذا روایتی بینکوں کی طرح ان میں بھی سرمایہ کاری کرنا جائز نہیں ہے، اور اس سے حاصل ہونے والا نفع  حلال نہیں ہے، البتہ  ضرورت پڑنے پر صرف ایسا اکاؤنٹ کھلوایا جاسکتا ہے جس میں منافع نہ ملتا ہو، مثلاً: کرنٹ اکاؤنٹ یا لاکرز وغیرہ۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100773

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں