بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میزان بینک میں انویسمنٹ کرنے کاحکم


سوال

میں ایک ریٹائر انسان ہوں ، میری پینشن 9200 روپے آتی ہے، ان کے علاوہ میراذاتی مکان ہےجس کاکچھ حصہ کرایہ پر دیاہواہے، اس علاوہ ایک عدد چھوٹی دکان ہے، جس سے 12500روپے کرایہ آتاہے، اس سب پر میراگزارانہیں ہوتا، اب میری خواہش ہےکہ دکان کو فروخت کرکے "میزان انویسٹمنٹ" کے شرعی اکاؤنٹس میں لگادوں ،جس کے لیےبینک والے کہتے ہیں کہ یہ سودسے پاک ہے، آپ سے گزارش ہےکہ میری راہ نمائی فرمائیں کہ کیا یہ کام کرکے گناہ گارتونہیں ہوں گا؟

جواب

 صورتِ مسئولہ میں سائل کا   میزان بینک یا   اس کے علاوہ دیگر مروجہ غیر سودی بینکوں  میں سرمایہ کاری کرنا اور کسی بھی قسم کا تمویلی معاملہ کرنا شرعاً جائز نہیں،البتہ  گزر بسرکے لیے    مذکورہ رقم  کو کسی  جائز سرمایہ کاری  میں لگایا جاسکتا ہے۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ﴿البقرة:٢٧٨﴾ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ﴿البقرة:٢٧٩﴾."

ترجمہ: اے ایمان والوں، اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو۔ پھر اگر تم نہ کرو گے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے اور اگر تم توبہ کر لو گے تو تم کو تمہارے اصل مل جاویں گے نہ تم کسی پر ظلم کرنے پاؤ گے اور نہ تم پر کویہ ظلم کرنے پائے گا۔ (از بیان القرآن)

تفسیرابن کثیرمیں ہے:

"يقول تعالى آمرا عباده المؤمنين بتقواه، ناهيا لهم عما يقربهم إلى سخطه ويبعدهم عن رضاه، فقال يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله أي خافوه وراقبوه فيما تفعلون وذروا ما بقي من الربا أي اتركوا ما لكم على الناس من الزيادة على رؤوس الأموال، بعد هذا الإنذار إن كنتم مؤمنين أي بما شرع الله لكم من تحليل البيع وتحريم الربا وغير ذلك."

(سورۃ البقرۃ،آیت:278/ 279،1،ج:1،ص:553،ط:دارالکتب العلمیۃ)

سننِ ترمذی میں ہے:

"حدثنا ‌قتيبة، قال: حدثنا ‌أبو عوانة ، عن ‌سماك بن حرب، عن ‌عبد الرحمن بن عبد الله بن مسعود ، عن ‌ابن مسعود قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل ‌الربا وموكله وشاهديه وكاتبه"

(باب ما جاء في أكل الربا، ج:2، ص:496، ط: دار الغرب الإسلامي - بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101163

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں