بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میزان بینک کے ڈیبٹ کارڈ پہ ملنے والا ڈسکاؤنٹ


سوال

کیا اسلامی بینک (میزان بینک) کے ڈیبٹ کارڈ پے ملنے والا ڈسکاؤنٹ جائزہے؟

جواب

ڈیبٹ کارڈ پرملنے والے ڈسکاؤنٹ کودیکھا جائے کہ یہ ڈسکاؤنٹ بینک (خواہ اسلامی بینک ہو یا روایتی بینک) کی طرف سے ہے یا جس ادارے سے  چیز خریدی جارہی ہے(مثلاً: ہوٹل یاشاپنگ مال وغیرہ) یہ رعایت اُس ادارے  کی جانب سے ہے،  اگر بینک کی طرف سے ڈسکاؤنٹ مل رہاہو تو یہ شرعاً سود کے زمرے میں شامل ہونے کی  بنا پر ناجائزہوگا،اور اگرمتعلقہ ادارے کی طرف سے یہ رعایت مل رہی ہو تو جائز ہے ۔

البتہ اگر یہ واضح نہ ہو کہ ڈسکاؤنٹ بینک  کی طرف سے ہے یا متعلقہ ادارے کی جانب سے   تب احتیاط اسی میں ہے کہ اس سہولت کو استعمال نہ کیا جائے۔

"عن فضالة بن عبيد صاحب النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: " كل قرض جر منفعة فهو وجه من وجوه الربا."

(أخرجه البيهقي في الكبرى في«باب كل قرض جر منفعة فهو ربا» (5/ 571) برقم (10933)، ط. دار الكتب العلمية، بيروت)

"عن عمارة الهمداني قال: سمعت عليًّا رضي الله عنه يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كل قرض جر منفعة فهو ربا."

( أخرجه الحارث في مسنده كما في المطالب العالية:«باب الزجر عن القرض إذا جر منفعة» (7/ 326) برقم (1440)،ط.العاصمة ، دار الغيث – السعودية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311102111

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں