بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میزان بینک کے مسئلے میں کون سا فتاوی پر عمل کریں؟


سوال

 کسی بھی ایک مسئلے پر مختلف علماء کی مختلف آراء ہوتی ہیں، اس صورت حال میں عوام کس کی بات مانیں  مثلاً: میزان بینک کے بارے میں بنوری ٹاون کا فتوی ہے کہ اس کے منافع نا جائز  ہیں،جب کہ دارلعلوم کراچی اس کو جائز قرار دیتا ہے۔ اس صورت میں عوام کہاں جائے؟

جواب

مروجہ اسلامی بینکاری کے حوالہ سے علماء کا ا ختلاف راجح مرجوح کا اختلاف نہیں، بلکہ یہ اختلاف، حلال اور حرام کا اختلاف ہے،  علماء کی ایک  جماعت  حرام قرار دیتی ہے اور بعض علماء حلال قرار دیتے ہیں، ایسے مسئلہ میں کہ جب حلال و حرام میں اختلاف ہو اور  کوئی شخص کسی ایک رائے کو قوتِ دلیل کی بنا پر ترجیح نہیں  دے سکتا ہو  تو اس صورت میں احتیاط اور سلامتی کی راہ یہ ہے کہ حرام کو مقدم رکھا جائےاور وہ کام چھوڑ دیا جائے کیوں کہ   بالفرض اگر حلال کہنے والوں کے موقف کو تسلیم کیا جائے تو اسلامی بینک کے ذریعہ سرمایہ کاری زیادہ سے زیادہ مباح عمل ہے۔  دوسری طرف حرام میں وقوع کا امکان ہے، مباح کو اختیار کرنا ضروری نہیں اس لیے مباح کو اختیار کرنے کی بجائے حرام سے بچا جائے کیوں کہ حرام سے  بچنا فرض ہے۔

الفروق للقرافی میں ہے:

فان اختلف العلماء فی فعل هل هو مباح او حرام فالورع الترک.

( الفرق السادس والعشرون والمئتان من الفروق، ج: ۴، ص: ۲۷۔ ط:عالم الکتب)

 الأشباہ و النظائر لابن نجیم میں ہے:

ما اجتمع محرم ومبيح إلا غلب المحرم "

والعبارة الأولى لفظ حديث أورده جماعة {ما اجتمع الحلال والحرام إلا غلب الحرام الحلال} .

قال العراقي: لا أصل له وضعفه البيهقي، وأخرجه عبد الرزاق موقوفا على ابن مسعود رضي الله عنه، وذكره الزيلعي شارح الكنز في كتاب الصيد مرفوعا. فمن فروعها ما إذا تعارض دليلان أحدهما يقتضي التحريم، والآخر الإباحة قدم التحريم، وعلله الأصوليون بتقليل النسخ؛ لأنه لو قدم المبيح للزم تكرار النسخ لأن الأصل في الأشياء الإباحة، فإذا جعل المبيح متأخرا كان المحرم ناسخا للإباحة الأصلية، ثم يصير منسوخا بالمبيح.

(ص:۹۳، ط: دار الکتب العلمیۃ بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100879

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں