بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میراث: والدہ ، 1 بیوہ، 4 بیٹے اور 2 بیٹیاں


سوال

 بندہ کے والد محترم جماعت میں  9 مہینے پہلے انتقال فرماگئے۔ انتقال سے کچھ دن پہلے گھر آۓ تھے اور والدہ سے یوں کہا تھا کہ سب کچھ (ATM وغیرہ) آپ دونوں ماں بیٹے کے حوالہ کر دیا ہے (سب دے بھی دیا تھا) آپ لوگ ہی سب دیکھو کیا کرنا ہے،  جس پر والدہ نے یوں کہا ہے کہ آپ بھی تو ہیں نا، تو  والد محترم نے کہا تھا:  میرے مرنے کے بعد آپ کو ہی کرنا ہے ۔

سوال یہ ہے کہ کیا ان دونوں(ماں بیٹے کو ترکہ پر ) کامل اختیار ہے  ؟ اگر اختیار نہیں ہے تو  مرحوم کی ایک والدہ، ایک بیوہ،دو بیٹیاں،چار لڑکے، آٹھ بھائی،چار بہنیں،ایک پوتا،ایک پوتی موجود ہیں، ان میں سے وراثت کا حق دار کون کون ہے؟ اور کتنا کتنا تقسیم ہوگا ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں  مرحوم  کے  ترکہ  کا مکمل اختیار  مرحوم  کی بیوہ اور  بیٹے کو حاصل نہیں ہوا ہے، بلکہ مرحوم کا ترکہ مرحوم کے شرعی ورثاء ( والدہ، بیوہ، چار بیٹوں اور دو بیٹیوں ) کے درمیان میراث کے  شرعی ضابطے کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔

مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ کار یہ ہے کہ مرحوم کی کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ میں سے مرحوم کے حقوقِ متقدمہ  یعنی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالنے اور اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرضہ ہو (مثلاً بیوی کا مہر وغیرہ) تو قرضہ کی ادائیگی کے بعد، اور اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی مال میں سے وصیت کو نافذ کرنے کے بعد باقی کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کو   240 حصوں میں تقسیم کر کے اس میں سے  40  حصے مرحوم کی والدہ کو،  30 حصے مرحوم کی بیوہ کو ، 34 حصے مرحوم کے ہر ایک بیٹے کو اور  17 حصے مرحوم کی ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔

مرحوم کے بھائی ، بہن اور پوتے پوتیوں کا مرحوم کے ترکہ میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111201021

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں