بندہ کے والد محترم جماعت میں 9 مہینے پہلے انتقال فرماگئے۔ انتقال سے کچھ دن پہلے گھر آۓ تھے اور والدہ سے یوں کہا تھا کہ سب کچھ (ATM وغیرہ) آپ دونوں ماں بیٹے کے حوالہ کر دیا ہے (سب دے بھی دیا تھا) آپ لوگ ہی سب دیکھو کیا کرنا ہے، جس پر والدہ نے یوں کہا ہے کہ آپ بھی تو ہیں نا، تو والد محترم نے کہا تھا: میرے مرنے کے بعد آپ کو ہی کرنا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ کیا ان دونوں(ماں بیٹے کو ترکہ پر ) کامل اختیار ہے ؟ اگر اختیار نہیں ہے تو مرحوم کی ایک والدہ، ایک بیوہ،دو بیٹیاں،چار لڑکے، آٹھ بھائی،چار بہنیں،ایک پوتا،ایک پوتی موجود ہیں، ان میں سے وراثت کا حق دار کون کون ہے؟ اور کتنا کتنا تقسیم ہوگا ؟
صورتِ مسئولہ میں مرحوم کے ترکہ کا مکمل اختیار مرحوم کی بیوہ اور بیٹے کو حاصل نہیں ہوا ہے، بلکہ مرحوم کا ترکہ مرحوم کے شرعی ورثاء ( والدہ، بیوہ، چار بیٹوں اور دو بیٹیوں ) کے درمیان میراث کے شرعی ضابطے کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔
مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ کار یہ ہے کہ مرحوم کی کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ میں سے مرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالنے اور اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرضہ ہو (مثلاً بیوی کا مہر وغیرہ) تو قرضہ کی ادائیگی کے بعد، اور اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی مال میں سے وصیت کو نافذ کرنے کے بعد باقی کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کو 240 حصوں میں تقسیم کر کے اس میں سے 40 حصے مرحوم کی والدہ کو، 30 حصے مرحوم کی بیوہ کو ، 34 حصے مرحوم کے ہر ایک بیٹے کو اور 17 حصے مرحوم کی ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔
مرحوم کے بھائی ، بہن اور پوتے پوتیوں کا مرحوم کے ترکہ میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144111201021
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن