ایک شخص جو کہ بیرون ملک میں تھا اور اس کا باپ فوت ہو گیا، اور اس کی تینوں بہنوں نے بغیر کسی پریشر یا فرمائش کے اپنی رضامندی کے ساتھ تحصیل دار کے آفس جا کر اپنے حصے کی زمین اپنے اکلوتے بھائی کے نام کرکے اس کو ہدیہ کردی ، اور بھائی اس وقت ملک سے باہر تھا ، اور اس کو اس معاملے کا علم ایک ماہ بعد پاکستان آ کر ہوا ہے کہ زمین اس کے نام کر کے اس کو ہدیہ کر دی ہے ، اس بات کو 40 سے 42 سال گزر چکے ہیں ، تو کیا اب بہنیں اپنی اولاد کے کہنے پر اپنے بھائی سے زمین واپس مانگ سکتی ہیں ؟ جب کہ بہنیں اس سے پہلے اپنے بھائی کو کئی مرتبہ باور بھی کروا چکی ہیں کہ ہم نے اپنی مرضی اور دل سے آپ کو اپنا حصہ دے دیا ہے۔
میراث ایک جبری حق ہے، جو کسی کے ساقط کرنے سے ساقط نہیں ہوتا ،اس لیے کسی وارث کا میراث کی تقسیم سے پہلےاپنے شرعی حصے سے بلاعوض دستبردار ہوجانا شرعا معتبر نہیں ہے، اگر کوئی وارث میراث سےاپنا حصہ نہ لینا چاہے اور متروکہ جائیداد وغیرہ قابل تقسیم ہو ، تو اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ پہلے جائیداد کی تقسیم کی جائے ، اور ہر وارث اپنے حصہ پر قابض اور با اختیار ہوجائے ، پھر جو وارث کسی کو اپنا کل یا بعض حصہ دینا چاہےتو دے سکتا ہے ، تقسیم اور قبضہ سے پہلے ہی کسی وارث کو ہبہ کر دے اور وہ قابل تقسیم ترکہ کا ہبہ درست نہیں ہے ، اس لیے اگر کوئی وارث تقسیم اور قابض ہونے سے پہلے ایک مرتبہ اپنے حصے سے دستبردار ہوجائے اور بعد میں اس کا مطالبہ کرے ،تو شرعاً اس کا یہ مطالبہ درست ہوگا، دیگر ورثاء پر ضروری ہوگا کہ اس وارث کو اس کا حصہ دے دیں ، البتہ ترکہ تقسیم ہو جائے، تو پھر ہر ایک وارث اپنے حصے پر قبضہ کرنے کے بعداسےکسی کو دینا چاہے،تو شرعا اس میں کوئی حرج نہیں۔
البتہ سارے ورثاء کسی ایک وارث کو ہبہ کردیں ، اور موہوب لہ (جس کو ہبہ کیا جارہا ہے ) اکیلا ہو ، اور اس ہبہ پر قبضہ بھی کرلے ، تو اس صورت میں موہوب لہ کے حق میں اشتراک نہ ہونے کی وجہ سے درست ہے ۔
مذکورہ تفصيل کی رو سے صورتِ مسئولہ میں مرحوم والد کے انتقال کے بعد اس کی متروکہ زمین کو بہنوں نے اپنی خوشی سے اپنے اکلوتے بھائی کے نام کیا ہے، اور یہ نام کرنا بطور ہبہ (گفٹ) کے تھا تو ایسی صورت میں اگر بھائی نے اس زمین پر قبضہ کرلیا تھا، توا س صورت میں اب بہنوں کا دوبارہ مطالبہ کرنا درست نہیں ہے ، اور اگر بھائی نے قبضہ نہیں کیا تو پھر بہنوں کا مطالبہ کرنا درست ہے ، اور بھائی کے ذمہ لازم ہےکہ وہ بہنوں کا حصہ ان کےطلب پر حوالے کرے ، ورنہ گناہ گار ہو گا۔
تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے :
"(لا) تتم بالقبض (فيما يقسم ولو) وهبه (لشريكه) أو لأجنبي لعدم تصور القبض الكامل كما في عامة الكتب فكان هو المذهب وفي الصيرفية عن العتابي وقيل: يجوز لشريكه، وهو المختار (فإن قسمه وسلمه صح) لزوال المانع."
ردالمحتار میں ہے :
"(قوله: وهو المختار) قال الرملي: وجد بخط المؤلف يعني صاحب المنح بإزاء هذا ما صورته، ولا يخفى عليك أنه اختلاف المشهور (قوله: فإن قسمه) أي الواهب بنفسه، أو نائبه، أو أمر الموهوب له بأن يقسم مع شريكه كل ذلك تتم به الهبة كما هو ظاهر لمن عنده أدنى فقه تأمل، رملي والتخلية: في الهبة الصحيحة قبض لا في الفاسدة جامع الفصولين."
(كتاب الهبة ، ج : 5 ، ص : 692 ، ط : سعيد كراچي)
تبیین الحقائق میں ہے:
"قال رحمه الله (والقاف القرابة فلو وهب لذي رحم محرم منه لا يرجع فيها) لقوله عليه الصلاة والسلام «إذا كانت الهبة لذي رحم محرم لم يرجع فيها» ولأن المقصود منها صلة الرحم وقد حصل وفي الرجوع قطيعة الرحم فلا يرجع فيها."
(كتاب الهبة ، باب الرجوع في الهبة ، ج : 5 ، ص : 101 ، ط : المطبعة الكبرى الأميرية)
التنبیہ علی مشکلات الہدایہ میں ہے :
"قوله: (ولو وهب لشريكه لا يجوز؛ لأن الحكم يدار على نفس الشيوع).
فيه نظر؛ لأنه إنما علل له بعدم إمكان كمال القبض، وبضرر الإلزام بالقسمة، والهبة من الشريك قد تصور فيها القبض الكامل، وليس فيها قسمة، فما المانع من صحتها والحالة هذه."
(كتاب الهبة ، ج : 5 ، ص : 591 ، ط : مكتبة الرشد ناشرون)
تاتارخانیہ میں ہے :
"وفى اليتيمة: سئل عمر الحافظ عمن مات، وترك ورثة، وديونا على الناس، ونقودا، وعروضا فقبل ان يقتسموا ذلك وهب احد الورثة حصته مثلا كان بحصة النصف من الدين ممن عليه الدين هل تصح هذه الهبة فقال: تصح استحسانا كما لو صالح بعض الورثة مع البعض قيل له فلو كان مكان الدين عين، والمسئلة على حالها كيف الجواب؟ فقال: نعم يصح، ويكون كالحقة."
(كتاب الهبة ، الفصل الرابع في هبة الدين ، ج : 14 ، ص : 444 ، ط : مكتبة زكريا ديوبند )
فتاویٰ قاضی خان میں ہے :
"رجل وهب عبده لرجلين أو رجلان وهبا عبداً لرجلين، أو وهب أحدهمانصيبه لشريكه أو لأجنبي وسلم، جاز. "
(كتاب الهبة ، فصل في الرجوع في الهبة ، ج :3 ، ص : 147 ، ط : دارالكتب العلمية)
الاشباہ والنظائر کی شرح غمزعیون البصائر میں ہے
"لو قال الوارث: تركت حقي لم يبطل حقه؛ إذ الملك لا يبطل بالترك ۔۔۔قوله: لو قال الوارث: تركت حقي إلخ. اعلم أن الإعراض عن الملك أو حق الملك ضابطه أنه إن كان ملكا لازما لم يبطل بذلك كما لو مات عن ابنين فقال أحدهما: تركت نصيبي من الميراث لم يبطل لأنه لازم لا يترك بالترك بل إن كان عينا فلا بد من التمليك وإن كان دينا فلا بد من الإبراء."
(الفن الثالث ، ما يقبل الإسقاط من الحقوق وما لا يقبله ، ج : 3 ، ص :345 ، ط : دار الكتب العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144510100390
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن