بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میراث میں بینک کی کمائی کا حکم


سوال

 میرے والد صاحب کا ایک سال پہلے انتقال ہو گیا ہے،میرے والد پیشے کے اعتبار سے وکیل تھے اور ان کی وکالت زیادہ تر بینک کے ساتھ منسلک تھی اور وہ مختلف بینک کے ساتھ کام کرتے تھے۔ بینک کا وکیل ہونے کی حیثیت سے درج ذیل کام ان کے ذمہ تھے ۔ ۔ ۔ 1۔ جب بھی کوئی شخص بینک سے قرض لینے کے لیے آتا تھا تو اس کے لیے قانونی کارروائی مکمل کرنا۔

2۔ جب بھی کوئی شخص لیا ہوا قرض بینک کو وقت پر ادا نہیں کرتا تھا تو اس کے خلاف قانونی کارروائی مکمل کرکے اس کی گروی رکھی ہوئی جائیداد کو بیچ کر بینک کی ادائیگی مکمل کرنا۔

3۔ بینک کے عدالتوں سے متعلقہ تمام قانونی کام کو سر انجام دینا۔ ان تمام ذمہ داریوں کے لیے بینک میرے والد صاحب کو مقرر کردہ فیس ادا کرتا تھا ۔ والد صاحب کی وفات کے بعد ان کے وارثان میں ہم تین بہن بھائی اور میری والدہ ہیں، ہم تینوں بہن بھائی شادی شدہ ہیں اور اپنا کاروبار کرتے ہیں۔ سوال میرا یہ ہے کہ بینک سے حاصل شدہ آمدنی کے بارے میں کیا حکم ہے ؟میرے والد صاحب نے وراثت میں خاندانی وراثتی زمین کے علاوہ ایک گھر چھوڑا ہے جو خالصۃ بینک سے حاصل شدہ آمدنی سے تعمیر کیا تھا اس کے بارے میں ہمارے لیے اب کیا حکم ہے؟ گھر کا کل رقبہ 20 مرلہ ہے جس میں سے 5 مرلے کی جگہ کی ادائیگی والد صاحب نے اپنی پرانی آمدن سے کی تھی جبکہ باقی15 مرلہ کی ادائیگی خالصتا بینک کی آمدن سے کی ہے اور گھر کی مکمل تعمیر بھی بینک کی آمدن سے ہوئی ہے اور اس کے علاوہ گھر کی تعمیر کے لئے بینک سے قرضہ بھی لیا تھا جو بعد میں مکمل ادا کر دیا گیا اب اس گھر اور اس کی زمین کی ہمارے لئے کیا شرعی حیثیت ہے؟ اور گھر کرائے پر دے کر اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کی ہمارے لیے کیا حیثیت ہے؟ برائے مہربانی رہنمائی فرما دیں ۔ 

جواب

واضح رہے کہ بینک ایک سودی ادارہ ہے جو اپنے تمام تر معاملات سود کے ذریعہ کرتا ہے اوراپنے ملازمین کو تنخواہ  بینک میں جمع شدہ رقوم کے ذریعہ ہی دیتا ہے اور بینک کے کسی بھی شعبہ میں ملازمت   سودی معاملات میں تعاون ہے جوکہ جائز نہیں ؛لہذا بینک کی آمدنی حلال نہیں بلکہ ناجائز ہے ؛لہذا صورت ِ مسئولہ میں  سائل کے مرحوم والد جو بینک کے لیے قانونی کارروائی  کرتے تھے اور اس پر بینک ان کو فیس دیا کرتا تھا تو سائل کے والد کی کمائی شرعا حلال نہیں تھی اور اس رقم سے سائل کے والد نے  جو پراپرٹی بنائی وہ بھی شرعا  حلال نہیں،اتنی  حلال  رقم شرعاً ان پر صدقہ کرنا واجب تھا  ،سائل کے  والد کااب  چوں کہ انتقال ہوچکا ہے اور انہوں نے اپنی زندگی میں اتنی رقم صدقہ نہیں کی  تو  اب ان کے ورثاء پر اتنی حلال رقم (جتنی رقم سے والد نے بینک کی حرام  رقم سے پراپرٹی خریدی) اگر بلا نیت ثواب غرباء اور فقراء میں صدقہ کردیں گے تو اس پراپرٹی کا استعمال کرنا اور اسے ورثاء کے درمیان تقسیم کرنا جائز ہوگا ،اسی طرح  گھر جو کرایہ پر دیا گیا تھا اس کا کرایہ بھی حلال نہیں ،تاہم اس کرایہ والے گھر کے آئندہ استعمال کے جائز ہونے کا بھی وہی طریقہ ہے جو اوپر پراپرٹی والے مسئلہ میں بیان ہوا ،البتہ خاندانی  وراثتی زمین اور دوسرے گھر میں 5مرلے کی زمین جو والد نے اپنی پہلی کمائی سے خریدی  اگر وہ حلال تھی تووہ  تمام ورثاء کے درمیان ان کے شرعی حصوں کے بقدر قابل تقسیم ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے :

"وفي حظر الأشباه: الحرمة تتعدد مع العلم بها إلا في حق الوارث، وقيده في الظهيرية بأن لا يعلم أرباب الأموال، وسنحققه ثمة ۔

 (قوله وسنحققه ثمة) أي في كتاب الحظر والإباحة. قال هناك بعد ذكره ما هنا لكن في المجتبى: مات وكسبه حرام فالميراث حلال، ثم رمز وقال: لا نأخذ بهذه الرواية، وهو حرام مطلقا على الورثة فتنبه. اهـ. ح، ومفاده الحرمة وإن لم يعلم أربابه وينبغي تقييده بما إذا كان عين الحرام ليوافق ما نقلناه، إذ لو اختلط بحيث لا يتميز يملكه ملكا خبيثا، لكن لا يحل له التصرف فيه ما لم يؤد بدله كما حققناه قبيل باب زكاة المال فتأمل"

(کتاب البیوع،باب البیع الفاسد،ج:۵،ص:۹۹،سعید)

وفيه أيضاّ:

"‌‌[مطلب إذا اكتسب حراما ثم اشترى فهو على خمسة أوجه]

(قوله اكتسب حراما إلخ) توضيح المسألة ما في التتارخانية حيث قال: رجل ‌اكتسب ‌مالا ‌من ‌حرام ثم اشترى فهذا على خمسة أوجه: أما إن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بها أو اشترى قبل الدفع بها ودفعها، أو اشترى قبل الدفع بها ودفع غيرها، أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم، أو اشترى بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم. قال أبو نصر: يطيب له ولا يجب عليه أن يتصدق إلا في الوجه الأول، وإليه ذهب الفقيه أبو الليث، لكن هذا خلاف ظاهر الرواية فإنه نص في الجامع الصغير: إذا غصب ألفا فاشترى بها جارية وباعها بألفين تصدق بالربح. وقال الكرخي: في الوجه الأول والثاني لا يطيب، وفي الثلاث الأخيرة يطيب، وقال أبو بكر: لا يطيب في الكل، لكن الفتوى الآن على قول الكرخي دفعا للحرج عن الناس اهـ. وفي الولوالجية: وقال بعضهم: لا يطيب في الوجوه كلها وهو المختار، ولكن الفتوى اليوم على قول الكرخي دفعا للحرج لكثرة الحرام اه".

(کتاب البیوع،باب المتفرقات،ج:۵،ص:۲۳۵،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101141

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں