بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میراث کی تقسیم کے وقت حاضر یتیم اور محتاج لوگوں کو دینے کا حکم


سوال

جیسا کہ سورۃ النساء آیت نمبر: 8 میں ہے:

ترجمہ:’’اور جب حاضر ہوں تقسیم کے وقت رشتہ دار اور یتیم اور محتاج تو ان کو کچھ کھلادو اس میں سے، اورکہہ دو ان کو معقول بات۔‘‘ صدق اللہ العظیم۔

سوال نمبر۱: ایسے رشتہ دار یعنی یتیم اور محتاج جن کا ترکہ میں اللہ کی طرف سے کوئی حصہ مقرر نہیں ہے، اور وہ تقسیمِ ترکہ کے وقت حاضر ہوجاتے ہیں، تو ان کو کچھ دینے کی صورت کیا ہوگی؟ یعنی کیا پہلے اللہ کی طرف سے مقرر کردہ اصول کے مطابق ترکہ تقسیم ہوگا اور اس کے بعد ہر فریق اپنے حصے میں سے اپنی مرضی سے چاہے تو ان افراد کو کچھ دے یا نہ دے، یا ان افراد کو مشترکہ ترکہ میں سے قبل از تقسیم تمام فریقین کی باہمی رضامندی سے کچھ دے دیا جائے، اور بعد میں ترکہ تقسیم ہو؟

سوال نمبر ۲: کیا اس حکم پر عمل کرنا لازم ہے یا اختیاری؟

سوال نمبر ۳: معقول بات سے کیا مراد ہے؟ مثال سے وضاحت فرمائیں!

جواب

۱۔واضح رہے کہ اگر تقسیم کہ وقت یتیم اور محتاج جمع ہوجائیں تو شریعت نے انہیں تقسیم کے بعد حاصل شدہ حصے سے، ہر بندے کو انفرادی طور پر کچھ صدقہ کرنے کی تلقین کی ہے، ان یتیم اور محتاج لوگوں کے لیے شریعت کے طرف سے باقاعدہ طور پر کوئی مقرر حصہ نہیں ہے۔

حضرت مفتی شفیع رحمہ اللہ نے اس کے متعلق معارف القرآن میں لکھا ہے:

’’خلاصہ یہ ہے کہ میراث کی تقسیم کے وقت اگر کچھ دور کے رشتہ دار یتیم، مسکین وغیرہ جمع ہوجائیں جن کا کوئی حصہ ضابطۂ شرعی سے اس میراث میں نہیں ہے تو ان کے جمع ہوجانے سے تم تنگدل نہ ہو، بلکہ جو مال خدا تعالیٰ نے تمہیں بلا محنت عطا فرمایا ہے، اس میں سے بطور شکرانہ کچھ عطا کردو، اور غنیمت جانو کہ خرچ کا ایک اچھا موقع مل رہا ہے، اس موقع پر ان لوگوں کو کچھ نہ کچھ دے دینے سے ان دور کے رشتہ داروں کی دل شکنی اور حسرت کا ازالہ ہوجائے گا۔۔۔ اور ایک بات یہ معلوم کرلینا ضروری ہے کہ ان لوگوں کو تبرعاً جو دیا جائے گا، مجموعی مال میں سے نہیں، بلکہ بالغین ورثاء میں سے جو حاضر ہوں وہ اپنے حصہ میں سے دیں، نابالغ اور غائب کے حصہ میں سے دینا درست نہیں۔‘‘

(سورۃ النساء، ج: 2، ص: 313 - 314، ط: مکتبہ معارف القرآن کراچی)

۲۔ صورتِ مسئولہ میں مذکورہ حکم یعنی تقسیم کے وقت یتیم اور محتاج رشتہ داروں کو کچھ دینے کا حکم مستحب ہے، نہ کہ واجب۔

بیان القرآن میں اس کے متعلق لکھا ہے:

’’مسئلہ: یہ حکم واجب نہیں مستحب ہےاور اگر ابتداء میں واجب ہوا ہوتو وجوب منسوخ ہے۔‘‘

(سورۃ النساء، ج: 1، ص: 330،ط: مکتبہ رحمانیہ)

۳۔مذکورہ آیت میں معقول بات سے مراد شفقت اور حسن ادب سے بات کرنا مراد ہے، جیسے کوئی اپنی اولاد کے ساتھ شفقت سے بات کرتا ہے۔

تفسیر مظہری میں ہے:

"وليقولوا قولا سديدا (۹) يعنى يقول الاترياء من الورثة ضعفاءهم بالشفقة وحسن الأدب او الأولياء لليتامى قولا حسنا شفقة كما يقولون لاولادهم بالشفقة."

(سورة النساء، ج: 2، ص: 21، ط: مكتبة الرشيدية الباكستان)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144404101982

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں