بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میراث کی تقسیم میں تاخیر کرنا درست نہیں


سوال

(1)کسی کے والد کا انتقال ہوجائے اور والد مرحوم وراثت میں مکان چھوڑ جائے،تو انتقال کے فوراً بعد اسے تقسیم کرنا چاہیے یا نہیں؟اگر کسی وجہ سے میراث کی تقسیم میں تاخیر ہوجائے تو اس کی وجہ سے مرحوم پر کوئی گناہ تو نہیں ہوگا؟

(2)والد مرحوم کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں،ان میں سے ایک بیٹا اوردو بیٹیاں جائیداد کی فوراً تقسیم کے قائل ہیں اور ایک بیٹا یہ کہتا ہے کہ "جب تک میری بیٹی کی شادی نہ ہوجائےمیں اس وقت تک میں جائیداد کی تقسیم کا قائل نہیں ہوں"،بیٹی کی شادی میں ایک سال ،بلکہ دس سال بھی لگ سکتے ہیں،اس طرح تاخیر کرنے کی کیا شریعت اجازت دیتی ہے یا نہیں؟

جواب

(1،2)واضح رہے کہ میراث کی تقسیم میں حتی الامکان جلدی کرنی چاہیے،بغیر کسی سخت مجبوری کے تاخیر کرنا درست نہیں،اس لیے کہ اگر بر وقت میراث کی تقسیم نہ  کی جائے تو آگے چل کر بہت سے مسائل کھڑے ہوجاتے ہیں، اگربغیر کسی مجبوری کےمیراث کی تقسیم میں تاخیر کی جائےتواس کی وجہ سے مرحوم پر کوئی گناہ نہیں ہوگا،بلکہ اس کا وبال اس پر ہوگا جو بغیر کسی وجہ کے میراث کی تقسیم میں رکاوٹ بنے گا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  جب مرحوم کے دیگر ورثاء(بيٹے،بیٹیاں)فوراًمرحوم کی متروکہ جائیداد کی تقسیم کے قائل ہیں،تو ایک بیٹے کا یہ کہنا کہ "جب تک میری بیٹی کی شادی نہ ہوجائےمیں اس وقت تک جائیداد کی تقسیم کا قائل نہیں ہوں" شرعاً درست نہیں،بلکہ جتنا جلدی ہوسکےمرحوم کےتمام ترکہ کوتمام ورثاء کے درمیان ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کردیا جائے۔

الدر المختار میں ہے:

"(وقسم) المال المشترك (بطلب أحدهم إن انتفع كل) بحصته (بعد القسمة وبطلب ذي الكثير إن لم ينتفع الآخر لقلة حصته) وفي الخانية: يقسم ‌بطلب ‌كل وعليه الفتوى، لكن المتون على الأول فعليها المعول"

( كتاب القسمة، ج:6، ص:260، ط:سعيد)

فقط والله تعالیٰ اعلم


فتوی نمبر : 144305100167

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں