بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میراث کی تقسیم اور وصیت کا حکم


سوال

 عبداللہ کے تین بھائی اور ایک بہن ہیں ،تینوں بھائی  حیات ہیں جب کہ والدین اور بہن فوت ہو چکے  ہیں، عبداللہ کی ایک ہی بیوی ہے ،جس سے کوئی اولاد نہیں ہے، عبداللہ کی وفات کے بعد اس کی  جائیداد کا وارث کون ہو گا؟ کیا عبداللہ  یہ  وصیت کر سکتا ہے کہ اس کی وفات کے بعد اس کی جائیداد کا وارث صرف اس کی بیوی اور دو بھتیجے ہوں؟

جواب

صورت ِمسئولہ میں عبداللہ کے انتقال کے بعد اگر ان کے ورثاء ایک بیوی ،تین بھائی اور ایک بہن ہوں تو ان کی جائیداد مذکورہ افراد میں ان کے شرعی حصوں کے بقدر تقسیم ہوگی ،ان کو محروم کرنے کی نیت سے کسی کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں، نیز بیوی وارث بن رہی ہے، لہذا اس کے لیے وصیت معتبر نہیں، البتہ اس کے لیے کی گئی وصیت دیگر ورثاء کی رضامندی پر موقوف ہوگی، جب کہ بھتیجے مذکورہ صورت میں وارث نہیں ہیں، اس لیے ان کے حق میں ایک تہائی تک وصیت کی جاسکتی ہے، ایک تہائی سے زائد کی وصیت کا نفاذ ورثاء کی اجازت پر موقوف رہے گا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ولا تجوز الوصية للوارث عندنا إلا أن يجيزها الورثة ولو أوصى لوارثه ولأجنبي صح في حصة الأجنبي ويتوقف في حصة الوارث على إجازة الورثة إن أجازوا جاز وإن لم يجيزوا بطل ولا تعتبر إجازتهم في حياة الموصي حتى كان لهم الرجوع بعد ذلك، كذا في فتاوى قاضي خان".

(کتاب الوصایا ،ج:6،ص:90،دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101799

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں