بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوہ، تین بیٹے اور ایک بیٹی میں میراث کی تقسیم اور ترکہ میں تصرف کے لیے نابالغ کی اجازت


سوال

میرے والد صاحب کا انتقال ہوگیا ہے، اب ان کی ہر چیز میراث میں شمار ہوگی ۔

1۔ مرحوم کی ایک بیوہ،  3 بیٹے اور ایک بیٹی ہے، ان میں سے ایک بیٹے کی عمر 15سال ہو چکی ہے اور ایک بیٹی کی عمر  10 سال ہے،باقی سب بالغ ہیں ، ان میں سے 15 سال کے بیٹے کی اجازت میراث میں معتبر ہے؟یعنی  کیا یہ بالغ شمار ہوگا؟

2۔ والد صاحب کے کچھ اچھے اچھے کپڑے ہیں ،ہم یہ چاہتے ہیں کہ اُن میں سے کچھ ہم خود رکھ لیں اور کچھ کسی مستحق کو دے دیں ، اب آیا اس میں 15سال کے بیٹے اور 10کی بیٹی کی اجازت کیسے معتبر ہوگی ؟ اس اعتبار سے کہ ہم مستحق کو کپڑے بھی دے دیں اور ورثاء میں سے کسی کی حق تلفی بھی نہ ہو؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مرحوم کے حقوقِ متقدمہ (تجہیز و تکفین کے اخراجات، قرض اور وصیت) ادا کرنے کے بعد بقیہ ترکہ میں سے 12.5% بیوہ کو، 25% ہر بیٹے کو اور 12.5% بیٹی کو ملےگا۔

1۔ 15 سال کا لڑکابالغ ہے،لہذا میراث میں اس کی اجازت کا اعتبار ہوگا۔

2۔اگر15 سال کا لڑکا اپنے حصے  میں سے غرباء کوکپڑے دینے کی اجازت دے تو اس کی اجازت معتبر ہے۔

10 سال کی لڑکی بالغ ہے یا نہیں؟  اس کے متعلق یہ تفصیل ہے کہ لڑکی کی بلوغت کی کم سے کم عمر نو سال ہے، نو سال پورے ہونے کے بعد جب بھی بلوغت کی کوئی علامت (حیض آنا یا حمل ٹھہرنا وغیرہ) لڑکی میں ظاہر ہوجائے تو وہ بالغ سمجھی جائے گی، لیکن اگر پندرہ سال عمر پوری ہونے کے باوجود کوئی علامت ظاہر نہ ہو تو پھر پندرہ سال مکمل ہوتے ہی لڑکی بالغ شمار کی جائے گی اور اس پر بلوغت والے تمام احکام جاری ہوں گے۔ خاندان، قوم، علاقہ اور موسم کے مختلف ہونے کی وجہ سے لڑکی کی بلوغت کی عمر مختلف ہوسکتی ہے، یعنی نو سے پندرہ سال کے دوران کسی بھی عمر میں وہ بلوغت کو پہنچ سکتی ہے، کوئی ایک ضابطہ سب کے لیے نہیں ہے،  البتہ پندرہ سال پورے ہونے کے بعد وہ بہرصورت بالغ سمجھی جائے گی۔

اگر لڑکی نابالغ ہے تو اس کے حصے میں سے  غریبوں کو ترکہ کے کپڑے نہیں دیے جاسکتے اور اگر وہ بالغ ہے تو اس کی اجازت سے اس کے حصے میں سے غریبوں کو ترکہ کے کپڑے دینا جائز ہے۔

الفتاوى الهندية (4 / 374):

 وأما ما يرجع إلى الواهب فهو أن يكون الواهب من أهل الهبة، وكونه من أهلها أن يكون حرا عاقلا بالغا مالكا للموهوب 

فقط والله اعلم

 


فتوی نمبر : 144110201633

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں