بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوہ، بیٹوں اور بیٹیوں میں میراث اور اس کی آمدن کی تقسیم


سوال

پانچ بیٹوں ، چھ بیٹیوں اور ایک بیوہ میں وراثت کی تقسیم کا حکم ،میرے والد محترم کا انتقال 26 اپریل 2020 ء کو ہوا ہے۔ والد صاحب کا کوئٹہ شہر میں ایک بڑا پلازہ ، کئی مارکیٹوں میں دکانیں ، رہائشی مکان ، گاؤں میں تین ایکڑ اراضی پر تعمیر شدہ مکان اور 7 ایکڑ زرعی اراضی بمع ٹیوب ویل ، تقریبا 4۔5 ایکڑ دیگر زرعی پلاٹ ملکیت ہے، نقد رقم بھی ہو گی ۔ ٹیوب ویل سے زرعی آمدن اور پلازہ و دیگر دکانوں سے کرایہ صرف بھائیوں کو مل رہا ہے ۔ ورثاء میں ہم چھ بیٹیاں ، پانچ بیٹے اور والدہ صاحبہ ہیں ۔

سوال نمبر 1 : وراثت کی تقسیم میں ورثاء کے حصص کا تعین کریں ۔

سوال نمبر 2 : اگر بھائی فی الحال تقسیم  نہ کرنا چاہیں تو جاری زرعی آمدنی اور کرایہ وغیرہ سے حاصل شدہ آمدن کا تقسیم کس طرح ہوگا ؟

جواب

واضح رہے کہ مرحوم کی جائیداد اور اس سے حاصل ہونے والی آمدن میں مرحوم کے تمام ورثا کا حق ہے، لہذا ورثا میں سے صرف بیٹوں کا مرحوم کی متروکہ جائیداد کی آمدن سے فائدہ حاصل کرنا اور دوسروں کو محروم کرنا شرعا جائز نہیں، ان پر لازم ہے کہ وہ جائیداد اور اس سے حاصل ہونے والی آمدن کو شرعی ضابطے کے مطابق تقسیم کریں۔

1۔ صورتِ  مسئولہ میں والد مرحوم کے کل ترکہ کو 128حصوں میں تقسیم کیاجائے گا،  جس میں سے  مرحوم کی بیوہ کو 16حصے(12.50٪) ، ہر ایک بیٹے کو  14،14 حصے (10.94٪) ، اورمرحوم کی ہر ایک بیٹی کو 7 ، 7 حصے (5.46٪) ملیں گے۔ 

2۔ اگر بھائی فی الحال تقسیم  نہ کرنا چاہیں تو جاری زرعی آمدنی اور کرایہ وغیرہ سے حاصل شدہ آمدن بھی مندرجہ بالا شرح فی صد کے مطابق تقسیم ہوگی۔ فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109201275

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں