میرے والد صاحب چند سال پہلے فوت ہو چکے تھے، ہم بہن بھائی اور والدہ اکٹھے رہتے تھے، ہماری وراثت میں ایک زمین تھی جو ہم نے تقریباً اڈھائی سال قبل فروخت کر کے اس کی رقم آپس میں وراثت کی ترتیب پر تقسیم کرلی تھی، جب کہ میں اس وقت غیر شادی شدہ تھی ، اس لیے میرے بھائیو ں نے میرے حصے کی رقم اپنے پاس بطور امانت رکھ لی تھی اور مجھے بتا دیا تھا ، اب چوں کہ میری شادی کو ایک سال ہوگیا ہے؛ اس لیے بھائیوں نے کہا کہ ہم وہ رقم آپ کے حوالے کر دیتے ہیں ، اس صورت مسئلہ میں قابل دریافت بات یہ ہے کہ اس رقم پر زکوٰۃ جو مجھ پر آ تی ہے وہ کب سے آ ئے گی ، کیا گزشتہ سال کی بھی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی یا وہ رقم میرے حوالے ہونے کے بعد سے زکوٰۃ کا حساب ہوگا ؟
صورتِ مسئولہ میں چوں کہ مذکورہ رقم سائلہ کی ملکیت میں آچکی تھی اور اس کی رضامندی سے بھائیوں کے پاس بطور امانت تھی،اس وجہ سے جب سے مذکورہ رقم سائلہ کی ملکیت میں آئی ہے، اس وقت سےسائلہ پر اس رقم کی زکات ادا کرنا واجب ہے؛لہذا مذکورہ رقم اگر گزشتہ سالوں کےدیگر اموال کے ساتھ ملا کر نصاب تک پہنچتی ہےتو سائلہ دیگر اموال کے ساتھ اس رقم کی زکات بھی ادا کرے گی ،ورنہ نہیں۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(وشرطه) أي شرط افتراض أدائها (حولان الحول) وهو في ملكه (وثمنية المال كالدراهم والدنانير) لتعينهما للتجارة بأصل الخلقة فتلزم الزكاة كيفما أمسكهما ولو للنفقة (أو السوم) بقيدها الآتي (أو نية التجارة) في العروض".
(كتاب الزكاة، ج:2 ص:267 ط:سعید)
بدائع الصنائع میں ہے :
"ومنها الملك المطلق وهو أن يكون مملوكا له رقبة ويدا وهذا قول أصحابنا الثلاثة".
(فصل الشرائط التي ترجع إلى المال ، كتاب الزكاةج:ص:9 ط:دار الكتب العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144507101085
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن