بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میراث کے مسئلہ کی توضیح


سوال

میرا سوال آپ کے جواب کے حوالے سے سمجھنے کے لئے ہے جو آپ نے استفتاء نمبر144109202581 کے حوالے سے عنایت فرمایا ہے کہ اگر زندگی میں کوئی مورث اپنے وارث کو کچھ دے دے اور یہ شرط لگائے کہ تم میراث میں سے کچھ بھی نہیں لو گے تو کیا اس شخض کو میراث میں سے واقعتا کچھ نہیں ملے گا؟ جب کہ ہم نے علماء سے سنا ہے کہ تخارج کا اصول مرنے کے بعد لاگو ہوتا ہے۔تو کیا اس صورت میں جبکہ زندگی میں ہی کسی کو کچھ حصہ دے کر اس سے اسٹامپ پر لکھوا لیا جائے تو کیا ایسا کرنےسے وہ وارث میراث سے محروم ہو جاے گا؟ جزاک اللہ تعالی خیرا 

جواب

واضح رہے  کہ  سوال نمبر144109202581  میں جو  جواب دیا گیا ہے ، وہ فتاوی  شامی کی اس عبارت کی بنا پر ہے:

"قال القهستاني: واعلم أن الناطفي ذكر عن بعض أشياخه أن المريض إذا عين لواحد من الورثة شيئاً كالدار على أن لايكون له في سائر التركة حق يجوز، وقيل: ه ا إذا رضي ذلك الوارث به بعد موته، فحينئذٍ يكون تعيين الميت كتعيين باقي الورثة معه، كما في الجواهر اهـ. قلت: وحكى القولين في جامع الفصولين فقال: قيل: جاز، وبه أفتى بعضهم، وقيل: لا اهـ".

( کتاب الفرائض۔6/ 655 ط: سعید)

لہذا اگرکوئی شخص زندگی میں کسی وارث کو اس شخص پر حصہ دے کہ وراثت میں اس کا حق نہ ہوگا اور وارث بھی اس پر راضی ہوجائے تو مورث کے انتقال کے بعد مذکورہ وارث کو میراث میں حصہ نہیں ملے گا۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101491

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں